Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لگا دی دون اس جنگل کو بس اک دو ہی آہوں میں (ردیف .. ا)

انشا اللہ خاں انشا

لگا دی دون اس جنگل کو بس اک دو ہی آہوں میں (ردیف .. ا)

انشا اللہ خاں انشا

MORE BYانشا اللہ خاں انشا

    لگا دی دون اس جنگل کو بس اک دو ہی آہوں میں

    یہ دھرپت قہر کچھ انشا نے دیپک راگ کا جوڑا

    تشریح

    انشا ء اللہ خان انشائاردو شاعری کے بہت بڑے فنکار تھے۔ انہیں الفاظ کے داخلی اور خارجی آہنگ، معنیات کی جہات اور تلازمات کی مناسبتوں کا کمال عرفان حاصل تھا۔ انشاء کا مطالعہ میرے لئے اس واسطے بھی باعث دلچسپی ہے کہ ان کے کلام میں موسیقی کی اصطلاحات کا برتاؤ تخلیقی سطح پر کمال درجہ فنکارانہ چابکدستی سے ہوا ہے۔ میرے خیال میں جس قدر انشاء نے موسیقی کی اصطلاحات کا تخلیقی استعمال کیا ہے اس قدر اور شاعروں میں ملنا دشوار ہے۔ وجہ ان کا گہرا لسانی شعور اور علم موسیقی کا وسیع ادراک ہے۔ انشاء نے موسیقی کی اصطلاحات سے ایسے ایسے نادر مضامین پیدا کیے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ موسیقی کی اصطلاحات کا پورا عرفان ہی کافی نہیں بلکہ انہیں صحیح صحیح برتنے کا شعور بھی ہونا چاہیے۔ اور یہ شعور انشاء میں بدجۂ اتم موجود ہے۔ چنانچہ اسی شعور کی بنا پر انشاء تلازمات سے مضمون کو ہمہ پہلو بنا دیتے ہیں۔

    زیرِ بحث شعر میں موسیقی کی دو ہی اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے۔ دھرپت اور راگ دیپک۔ دھرپت ہندوستانی موسیقی کی ایک قدیم صنف ہے جس کی طرز نہایت سادا ہے۔ اس میں زمزمہ، مرکی یا گٹکری وغیرہ کی اجازت نہیں۔ سیدھے سادے طریقے سے ولمبت(سست) لے میں گایا جاتا ہے۔

    راگ دیپک کا تعلق پوربی ٹھاٹھ سے ہے۔(ٹھاٹھ کہتے ہیں راگ راگنیوں کے خاندانوں کو۔ شاستری سنگیت میں دس ٹھاٹھ ہیں جن سیراگ راگنیوں کا تعلق ہے) بعض لوگ اسے بلاول، کلیان اور بھیروں ٹھاٹھ پر بھی گاتے ہیں۔ مگر چتر پنڈت کے نزدیک پوربی ٹھاٹھ کی ’’مت‘‘ (طرز)سب سے اچھی ہے۔ راگ دیپک کے بارے میں ایک مفروضہ یہ ہے کہ اس کے گانے بجانے سے شمعیں جل جاتی ہیں یا آگ لگتی ہے۔ اسی بنا پر اس راگ کا نام دیپک رکھا گیا ہو۔

    شعر میں لفظ دَون (بتحریکِ اول) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دَون اس آگ کو کہتے ہیں جو جنگل میں جلائی جاتی ہے۔ دَون کے اور بھی معنی ہیں مگر انشاء نے اسے جنگل کی آگ کے معنوں میں ہی استعمال کیاہے۔ اس طریقے سے دون کی مناسبت جنگل اور دیپک سے خوب ہے۔ جب دون اور دیپک کہا تو ظاہر ہے کہ آہ سے مراد آہِ آتشیں ہے۔ انشاء کا ہی شعر ہے؎

    پھر اس پہ ایسی ہی مطرب نے جوگیا گائی

    کہ بن کھڑا ہوا فوں آہِ آتشیں کا سانپ

    اب نئی مناسبتیں دجود میں آئیں۔دون کی مناسبت سے جنگل اور آہ(آہِ آتشیں)کی مناسبت سے راگ دیپک۔لیکن انشاء کی فنکاری کمال دیکھیے کہ آگ جو کہ سامنے کا لفظ ہیکے بجائے دون استعمال کیا ہے۔ دُون(بضم اول) موسیقی کی ایک اصطلاح ہے۔ اور موسیقی میں دُون کہتے ہیں اونچے سُر کی آواز کو۔ اگرچہ شعر میں دُون کا کوئی محل نہیں ہے مگر دَون (جنگل کی آگ) اور دُون(اونچا سُر) کے املا میں مماثلت ہے۔ اگر یہ زبر اور پیش کا فرق نہیں ہوتا تو استخدام پیدا ہوتا۔ بہرحال مماثلت کی بنا پر تربیت یافتہ قاری کا ذہن انشاء کی اس ذہانت کو خوب سمجھ سکتا ہے۔ انشاء نے دُون کا لفظ اس شعر میں استعمال کیا ہے؎

    ٹھاہ اور دُون میں نالے میں بھروں تو مطرب

    ابھی گڑ پنکھ ہو قانون و نے و چنگ اڑے

    ٹھاہ کہتے ہیں مدہم درجے کی آواز کو۔ یعنی ٹھاہ اور دون ہوئے زیروبم۔ شعر میں خاص بات یہ ہے کہ آہ اظہارِ درد کا ایک وسیلہ ہے۔ اس میں کسی طور کے تکلف، تصنع از قسم النکار (گٹکری، زمزمہ، مرکی وغیرہ) کا کوئی محل نہیں۔ اس طور سے آہ کی مناسبت دھرپت سے بنتی ہے۔ ایک اور دلچسپ پہلو کی طرف بھی دیکھیں۔ یہ پہلو ہے دون کا صوتی آہنگ۔ طبلے کے بائیں سے جب تال کے ایک بول’’دِھن‘‘ کی آواز نکلتی ہے تو سننے میں دوں لگتی ہے۔ میر حسن کا عمدہ شعر ہے؎

    کہا زیر نے بم سے بہر شگوں

    کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں

    نظیر اکبر آبادی نے تو سماں ہی باندھا ہے؎

    ہر سرنا میں دھن میں میں کی اور کرنا ترئی جھانجھ بڑے

    کر دھونسے دھوں دھوں باج رہے اور تاشے بجتے کڑ کڑ سے

    ایک اور عمدہ پہلو یہ بھی ہے کہ جوڑنا کا ایک معنی حساب لگانا اور جلانا بھی ہے۔ اس طرح سے ’’ایک دو ہی‘‘ کی مناسبت سے جوڑنا اور جوڑنا بمعنی جلانا کی مناسبت سے دون اور دیپک راگ شعر کے معنوی حسن میں چار چاند لگاتے ہیں۔

    کمال ہے۔

    شفق سوپوری

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے