شاخ میں گل کی نزاکت یہ بہم پہنچی ہے (ردیف .. ل)
شاخ میں گل کی نزاکت یہ بہم پہنچی ہے
شمع ساں گرمیٔ نظارہ سے جاتی ہے پگھل
تشریح
اردو میں تفہم و تشریح کا عمل زیادہ تر غزل کے اشعار تک ہی محدود رکھا گیا جس سے مثنوی اور قصیدہ گو شعرا کی جولانیٔ طبع کی صحیح طور پر ترجمانی نہ ہوسکی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ نمائندہ مثنویوں اور قصیدوں کو درسی نصاب میں ٹھونسا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف ان ادبی شاہکاروں کے ساتھ ناانصافی ہوئی بلکہ شعری ادب کا ایک اہم اور قابلِ قدر حصّہ تعینِ قدر سے محروم رہا۔ ادھر مثنویوں اور قصیدوں پر تنقیدات کے عمل کے دائرے کو زیادہ تر درس و تدریس کی ضروریات تک محدود رکھا گیا جس سے سنجیدہ قاری کو ناقص تنقید کا بوجھ سہنا پڑا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ چونکہ مثنوی یا قصیدہ کے اشعار معنوی سطح پر باہم مربوط ہوتے ہیں لہٰذا کسی ایک شعر کو سیاق و سباق سے الگ کرکے تشریح و تفہیم کے لیے منتخب کرنا دشوار ہے۔ مگر میں یہ مانتا ہوں کہ اگر دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو سینکڑوں کی تعداد میں ایسے اشعار کا انتخاب کیا جاسکتا ہے جو معنی کے اعتبار سے نہ صرف خود مکتفی ہیں بلکہ اگر ان کی تشریح سلسلۂ مضمون سے منقطع کرکے بھی کی جائے تو نفسِ مضون پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مثال کے طور پر زیرِ بحث شعر جسے سوداؔ کے قصیدے ’’باب الجنّت در منقبتِ امیرالمومنینؓ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ شعر کئی اعتبار سے دلچسپ ہے اور قابلِ غور بھی۔ دل چسپ اس لیے کہ اس کی بنت بہت لطیف ہے۔ مثلاً شاخ، گُل، نزاکت، شمع، گرمیٔ نظارہ وہ الفاظ ہیں جن سے سوداؔ نے ایسی پرکیف فضا پیدا کی ہے جو قاری کو اس شعر کے لفظی اور معنوی انسلاکات پر غور کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان انسلاکات کی توجیہ اور توضیح قاری کے اندر کئی احساسات کو متحرک کرتی ہے۔
شعر کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے معنی میں کیفیت، وسعت اور گہرائی پیدا کرنے کے لیے سوداؔ نےتخیل کی قوّت سے جو نادر پیکر تراشا ہے اس کی نوعیت بیک وقت بصری، شامعی، لمسی اور حرکی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ باقی سب پیکروں کی بنیاد بصری پیکر ہر رکھ کر انسانی جمالیات کی کئی حسوں کو بیک وقت انگیخت کیا گیا ہے۔ شاخ، گُل، شمع، گرمیٔ نظارہ اور پگھلنا، ان سب الفاظ سے تخلیق ہونے والے دیگر پیکروں کی وضاحت یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ جب گُل ہے تو خوشبو کو بھی قیاس کیا جائے گا یعنی شامعی پیکر وجود میں آگیا۔ شاخ شمع کی طرح گرمیٔ نظارہ سے پگھل جاتی ہے گویا گرمی کا لمس محسوس کرتی ہے لہٰذا لمسی پیکر تخلیق ہوا۔ شاخ میں گُل کی نزاکت پہنچنے اور گرمیٔ نظارہ سے پگھل جانے میں حرکت کا دخل ہے اس لیے حرکی پیکر بن گیا۔
سودا نے شاخ، گُل، نزاکت، شمع اور گرمیٔ نظارہ کے روایتی انسلاکات سے گریز کرکے اپنی جودتِ طبع اور قوّتِ تخیل سے الفاظ کے درمیان ایک ایسا معنوی ربط پیدا کیا ہے کہ شعر میں جذباتی تاثر اور محاکاتی اثر کو خوب محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ولیؔ دکنی کے اس شعر میں کسی حد تک نازک خیالی کے ساتھ ساتھ ندرت کا بھی احساس ہوتا ہے؎
تجھے شمع کے برابر کہہ سکوں کیوں کر
کہ نخلِ موم جدا، سروِ سر بلند جدا
ولیؔ کا یہ شعر بھی معنی آفرینی کے اعتبار سے دل چسپ ہے؎
معشوق کو ضرر نہیں عاشق کی آہ سوں
بجھتا نہیں ہے بادِ صبا سوں چراغِ گُل
زیرِ بحث شعر کا کلیدی لفظ شاخ ہےکہ گُل کی نزاکت بہم پہنچنے اور گرمیٔ نظارہ سے شمع ساں پگھلنے کی سب سرگرمیوں کا مرکز و مفعول یہی ہے۔ دیکھا جائے تو شاخ اپنی ذات میں ایک کمزور استعارہ ہے۔ لیکن سوداؔ نے گُل، شمع اور گرمیٔ نظارہ کے استعاروں سے اسے وہ وسعت بخشی ہے کہ یہ(شاخ) نہ صرف پورے منظر کا احاطہ کرتی ہے بلکہ معنی و مفہوم کا مرکز بھی بن جاتی ہے۔ شمع ساں کمال کی تشبیہ ہے۔ اسی تشبیہ کے زور سے سوداؔ نے شاخ کو موم پتی کا بلیغ استعارہ بنایا ہے۔ گُل کی نزاکت اور گرمیٔ نظارہ سے حسنِ تضاد پیدا ہوا ہے۔ تضاد کی صورت ایجابی ہونے کی بنا پر شعر کے حسن میں دونا اضافہ ہوا ہے۔
غالبؔ نے ناکامیٔ نظارہ کو برقِ نظارہ سوز پر محمول کرکے قصّہ ختم کیا ہے؎
ناکامیٔ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو نظارہ کرے کوئی
لیکن سوداؔ نے گل کی نزاکت سے گرمیٔ نظارہ پیدا کی ہے۔ غالب کے شعر میں برقِ نظارہ سوز سے طنطنہ پیدا ہوا ہے جبکہ سوداؔ کے شعر میں گل کی نزاکت اور گرمیٔ نظارہ سے سوز و گداز بلکہ سوزش کی ایک لطیف لہر دوڑتی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے۔ میرؔ نے البتہ اس شعر میں اس نوع کی لطیف کیفیت پیدا کی ہے؎
اس سیم تن کو تھی کب تاب و تعب اتنیوہ چاندنی میں شب کی ہوتا تو پگھل جاتا
(دیوانِ دوم)
شعر کی تفہیم مجازی اور حقیقی سطحوں پر ان الفاظ میں بیان کی جاسکتی ہے کہ شاخ کے اندر گل کی نزاکت کچھ اس طور سے سرایت کر گئی کہ گرمیٔ نظارہ سے شمع کی طرح پگھلنے لگی۔ پھول کو سرخ رنگ کی مناسبت سے شعلے سے تعبیر کرتے ہیں تو اپنی نزاکت کی خصوصیت سے یہ شعلہ دہکتا تو ہے لیکن بھڑکتا نہیں۔ کیونکہ بھڑک اٹھتا تو بھک سے غالبؔ کی برقَ نظارہ سوز کی طرح شاخ کو ایک ہی آن میں بھسم کردیتا۔ پگھلنا سوز و گداز کی وہ کیفیت ہے جو شاخ کو مجسم شمع بنا دیتی ہے۔ اس کیفیت سے شاخ میں خود سوزوگداز پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اسے(یعنی شاخ کو) بصورتِ شمع یوں تصور کرسکتے ہیں کہ اس کی لو جل رہی ہے اور یہ لو آہستہ آہستہ اسے پگھلارہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ شعر قصیدے کی تشبیب سے لیا گیا ہے اور تشبیب بھی بہاریہ ہے، اس کے اندر اگر مزید معنی کی جستجو کریں گے تو معلوم ہوگا:(۱) نرم اور ملائم شے اپنی صحبت سے سخت سے سخت ترین شے کی تقلیب ماہیت کردیتی ہے بلکہ خود میں ہی ضم کردیتی ہے۔ (۲)[ عارفانہ نقطۂ نظر سے] جب تک کسی فرد میں سوزو گداز پیدا نہ ہو اس کا وجود مجرد، خشک اور ٹھوس ہے۔ سوزودداز کی کیفیت اسے حسن کا عرفان عطا کرتی ہے۔ جب حسن کہا تو حسن اور عشق یعنی شاہدومشہود کو لازم و ملزوم سمجھا۔
شفق سوپوری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.