تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
تشریح
پہلے مصرع میں لفظ کھٹکا لا کر غالبؔ نے اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس جگہ خدشہ یا دھڑکا بھی لکھا جا سکتا تھا۔ لفظ کھٹکا کے کئی معنی ہیں۔ ایک تو وہی جس کے متبادل خدشہ، دھڑکا، اندیشہ وغیرہ ہیں۔ لیکن دبے پاؤں چلنے کی آواز کو بھی کھٹکا کہتے ہیں اور موت دبے پاؤں ہی آتی ہے۔ غالبؔ نے خود اپنے اک شعر میں کہا ہے۔
’’رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو‘‘
لیکن کھٹکا کے سب سے دلچسپ معنی ہیں چٹخنی یا بولٹ۔
’’رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو‘‘
کہہ کر غالبؔ نے اک بڑا فلسفہ بھی بیان کر دیا ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی محافظ خود موت ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مصرع کے یہ معنی دوسرے مصرع کا ساتھ دے پاتے ہیں؟ تو جان لیجیے کہ دوسرے مصرع کا ساتھ دینے کے لیے دوسرے کارآمد معنی موجود ہیں۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ اگر پہلا مصرع ایک سے زائد معنی دیتا ہے تو صرف وہی معنی لیے جائیں گے جو دوسرے مصرع کا ساتھ دیتے ہوں اور دوسرے مصرع سے مطابقت نہ رکھنے والے معنی مسترد کر دئے جاتے ہیں لیکن اگر مسترد کردہ مفہوم میں بہت وزنی بات کہی گئی ہو اور وہ شعر کے مجموعی مفہوم سے تصادم نہ ہو تو یہ شعر کی اک جداگانہ خوبی بن جاتی ہے اور ایک شعر ڈیڑھ شعر کے برابر ہو جاتا ہے۔ غالبؔ نے ایسے بہت سے شعر کہے ہیں جن کے ایک مصرع میں بڑی تہہ دار بات کہی گئی ہے اور دوسرے مصرع کے ساتھ اس کا جوڑ بٹھانے کے لیے بہت کھینچا تانی کرنی پڑتی ہے۔ زیر بحث شعر کے مفہوم کی طرف آئیں تو شاعر کہتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ موت کو سامنے دیکھ کر میرا رنگ زرد پڑ گیا ہے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ میں تو اپنی موت کی آہٹیں بہت پہلے سے سن رہا تھا۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.