Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چناؤ

MORE BYعلی عباس حسینی

    کردار

    گوپال۔۔۔ ایک بوڑھا کسان، لاغر، سوکھا ہوا۔ مگر آواز میں ایک گرج سی۔

    جھکو۔۔۔ ادھیڑ عمر کا، گول مول، پستہ قد، آنکھوں سے عیاری و ہوشیاری ٹپکتی ہوئی، ننگے سر، بڑی سی چوٹیا۔

    ہکو۔۔۔ ادھیڑ عمر، لمبا، دبلا پتلا، چہرے سے نیکی ٹپکتی ہوئی۔ جہاں دیدہ، پڑھا لکھا۔

    متئی کی ماں۔۔۔ بوڑھی، موٹی تازی، ہنس مکھ۔

    دوسرے کسان اور دیہاتی، دیہاتنیں۔۔۔

    دیہاتی سرپنچ کا الیکشن ہے۔ ایک نیم پختہ مکان کے دالان کے سامنے صحن میں ٹاٹ بچھا ہے۔ اس پر کسان اور دوسرے گاؤں کے رہنے والے بیٹھے ہیں۔ کوئی نریل پی رہا رہے، کوئی میٹچا، کہیں پر چلم ہی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو رہی ہے اور آپس میں باتیں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے شور سا ہے۔

    صحن سے ملے ہوئے دالان کے سرے پر ایک چھوٹی سی میز رکھی ہے، اس کے نیچے کرسی پر گوپال بیٹھا ہے۔

    گوپال: (کھڑے ہوکر) بھائیو، بہنو!

    متیٔ کی ماں: (ایک بوڑھی کو کہنی مار کر) لو بھوجی، آج سے توں ہوں بہن ہو گئی لو! (آج سے تم بھی بہن ہو گئیں۔)

    بوڑھی: اری چپ! (عورتوں میں کھی کھی ہنسی ہونے لگتی ہے۔)

    گوپال: متیٔ کی ماں! جرا (ذرا) ان پپہیوں، کوئلوں کو چپ کراؤ، تو ہم کچھ کہیں۔

    متئی کی ماں: (کھڑی ہوکر کمر پر ہاتھ رکھ کے) ارےکوئلن نہ سنائی دیت ہے کہ کوا کائیں کائیں کرت ہے! (ارے کوئلو، نہیں سنائی دیتا کہ کوّا کائیں کائیں کرتا ہے۔)

    (بڑے زور کاقہقہہ پڑتا ہے۔ متیٔ کی ماں کو پہلی بوڑھی کھینچ کر بیٹھا دیتی ہے)

    گوپال: چلو، ہنستے ہی گھر بستے ہیں۔اور یہ کام بھی ہے پورے گاؤں کے بسنے اور سنورنےکا! (رک کر) اچھا اب ہنسی کھتم۔ اب کام کی بات سنو۔ ہم کو آج کے دن اپنی گاؤں پنچایت کا سرپنچ چننا ہے۔

    متئی کی ماں: اور تونہہ کے کا بھوا ہے؟ جیسے تین ورش سے ہو، اس ورش اور سہی۔۔۔

    (اور تم کو کیا ہوا ہے۔ جیسے تین برس سے ہو، اس سال اور سہی)

    مجمع۔ ہاں۔ ہاں۔ ٹھیکے کہت ہو کاکی۔ (ہاں، ہاں، ٹھیک ہی کہتی ہو کاکی)

    گوپال: نہیں نہیں، ہم نے جندگی بھر کا ٹھیکہ نہیں لیا ہے! پھر نیا آدمی چنوگے تو وہ نئی نئی یوجنا سوچےگا۔ دوڑھے دھوپےگا، گاؤں کو آگے برھانے کی اپائیں سوچےگا، یہ ہم بوڑھوں سے نہیں ہوتا۔۔۔

    متیٔ کی ماں: بھوجی تو کہت ہیں کہ توں ایسا بوڑھا نا ہو! (بھوجی تو کہتی ہیں کہ تم ایسے بوڑھے نہیں ہو۔) قہقہہ پڑتا ہے۔

    بوڑھی: (متیٔ کی ماں کو کھینچ کر) ارے نہ اہ کے کھد لجا آوے نہ ای دوسرے کی لجا رکھے۔ (قہقہہ)

    گوپال: متیٔ کی ماں مرے اجلے بالوں پر دیا کرو اور چپ رہو، کام کرنےدو۔ (رک جاتا ہے۔)

    متیٔ کی ماں: ای بال تو توں دھوپ میں پکائے ہو۔ (بوڑھی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔ متیٔ کی ماں غیں غیں کرکے ہاتھ جوڑ کر خاموش رہنے کا اقرار کرتی ہے۔)

    گوپال: (تقریر جاری رکھتے ہوئے) ہاں بھائیو، تو آج جو ہم اکٹھا ہوئے ہیں تو کام یہ ہے کہ ہمیں اپنا سرپنچ چننا ہے۔ اس جگہ کے لیے دو امیدوار ہیں۔ ایک تو ہیں جکھو اور دوسرے ہیں ہکو۔ ہم کو انھیں میں سے ایک کو چننا ہے۔ اس لیے میں تو بیٹھا جاتا ہوں، تم ان کے منہ سے ان کےگن سن لو۔ وہ کیسے ہیں، کیا کیا کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ وہ کھُد تم کو بتائیں گے۔ (رک کر) پہلے جھکو بھیا آئیں۔

    جھکو: (گھمنڈ سے چلتا ہوا میز کے پہلو میں آکر کھڑا ہو جاتا ہے۔) ہم کو آپ پرشوں ناریوں میں سے کون نہیں جانتا۔ ہم یہیں پیدا ہوئے، یہیں پلے، یہیں بڑھے۔ نہ پرائے دیش گئے، نہ کسی پاٹ شالے، اسکول میں پڑھے بالکل آپ جیسے ہیں۔

    ہکو کا ایک ساتھی: بھگوان نہ کرے ہم آپ جیسے ہوں! (قہقہ

    گوپال: کھاموش! (خاموشی چھا جاتی ہے)

    جھکو: بھائیو! پتا جی مرے تھے تو نہ ہاتھ بھر زمین پاس تھی نہ ہل نہ بیل، پر آج تم پنچوں کی دیا سے دو ہل کی کھیتی ہے۔ بیس بیگھے کے ہم بھومی دھر ہیں اور رہنےکو پکی حویلی ہے۔ سو بھائیو! اگر تم چاہتے ہو کہ ہمارا گاؤں بھی اسی طرح بڑھے، تم نرپت پور والوں سے ہر بات میں بازی لے جاؤ، اس گاؤں کے باسیوں کی ہر مکابلے میں طبیعت جھک کردو تو ہمیں سرپنچ بناؤ۔

    جھکو کے ساتھی۔ ارے واہ رے جھکوّ واہ! واہ! ہکو تمہارے سامنے جھک ماریں۔

    گوپال: کھاموش!

    جھکو: ( ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہوئے) یاد رکھو، مری جگہ ہکوّ کو چنوگے تو وہ سوئے ہکا پینے کے اور کچھ نہ کریں گے! (ہکو اپنی ذیل گھبراکر بغل میں بیٹھے ہوئے ساتھی کو پکڑانے لگتا ہے۔ مجمع اس کی طرف پلٹ کر دیکھتا ہے اور قہقہہ لگاتا ہے۔ جھکو مسکراکر مجمع کے سامنے جھکتا ہے اور اپنی جگہ پر بیٹھنے کے لیے چلا آتا ہے۔)

    گوپال: (کھڑے ہو کر) اب ہنسی بند کرو اور ہکو بھائی کی کتھا سن لو! (بیٹھ جاتا ہے۔)

    (ہکو، گھبرایا گھبرایا اٹھتا ہے، میز کی طرف چلتا ہے۔)

    مجمع میں سے ایک: ارے کاکا اپنا ہکا تو لئے جاؤ! (قہقہہ)

    (ہکو اس قہقہہ پر جیسے سکڑ جاتا ہے۔ پھر اس کے چہرے پرعزم کی ایک لہر سی دوڑتی ہے۔ وہ اپنی طرف بڑھے ہوئے نریل کو بائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اسے میز پر ٹیکا کر تقریر کرنے لگتا ہے)

    ہکو: دیویو اور پرشو! جھکو کی طرح ہم نے بھی اسی گاؤں میں جنم پایا، یہیں پلے اور بڑھے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ہم نے دو اکشر پڑھا بھی اور ہم پرائے دیشوں کاحال بھی اپنی آنکھ سے دیکھ آئے ہیں۔ (رک کر) ہمارے باپ دادا سدا سے اس گاؤں کے اچھے کسانوں میں تھے، گھر بھی تھا، بیل بھی تھے، گیا بھی تھی، بھینسیں بھی تھیں۔ ہم چاہتے تو ہم اور ہمارا کٹم سیکڑوں بیگھے زمین کا بھومی دھر بن جاتا۔ پر نتو تم جانتے ہو کہ ہمارا نام ہکو ہے۔ یعنی ہک بات کہنے والا، ہر ایک کا حق دینے والا۔۔۔

    جھکو: ہکو نہیں، ہکو ہے، ہکا پینے والا۔ (قہقہہ)

    جھکو کا ساتھی: کاکا! تم تو اپنے نام کا نسان کھد ہی ہاتھ میں لیے ہو! (قہقہہ)

    اسی کا دوسرا ساتھی: کاکا! اب کے پرانت کے چناؤ میں یہی نریل بکسا پر کھنچوا دینا! (قہقہہ)

    گوپال: (کھڑے ہو کر) بھائیو، دیکھو، ہم پنچ ہیں۔ ہمارے لیے کہا گیا ہے ’’پنچ پرمیشر!‘‘ ہمارا کام نیائے ہے جبردستی کسی کی پچ کرنا انیائے ہے۔ جھکوّ کی جھک جھک بک بک (قہقہہ) تم سب لوگوں نے سن لی، اب ہکو کو کیا کہنا ہے اسے بھی دھیرج سے سنو۔ ہکو کو بھی جی بھر ہک ہک کر لینے دو۔ (قہقہہ) بس اب سوائے ان کے کوئی چونچ نہ کھولے۔ کھبردار! (قہقہہ۔ گوپال بیٹھ جاتا ہے)

    ہکو: (مجمع کو ہاتھ اٹھاکر خاموش کرکے) تم سب بھائی مرے حقے پر بڑی پھبتیاں کستے ہو۔میرا شریر بھی ڈیڑھ خم کی طرح کچھ ٹیڑھا سا ہو گیا ہے (قہقہہ) مگر دہرے تمباکو کی طرح کالا نہیں ہوا ہے۔ میں جو بات تم سے کرنے کو کہوں گا، اسے سب سے پہلے خود کروں گا۔ (رک کر) اچھا لو، یہ سب سے پہلا سدھار۔

    (ہکو نریل کو چٹ سے توڑ کر پھینک دیتا ہے۔ پہلے لوگ اچنبھے سے منھ کھول کر دیکھتے ہیں)

    ہکو کا ایک ساتھی: واہ کا کا واہ! (وہ تالی پیٹتا ہے، سب تالی پیٹنے لگتے ہیں اور مجمع میں ہر طرف سے واہ واہ، کی آواز سنائی دیتی ہے۔)

    ہکو: (ہاتھ کے اشارے سے خاموش کر کے) میں تم سارے پنچوں کے سامنے سوگند کھاکر کہتا ہوں کہ آج سے میں نے یہ پچاس برس کی لت چھوڑ دی۔

    مجمع: واہ، واہ۔

    ہکو: خالی خولی واہ واہ نہیں۔ یہ بتاؤ کہ تم پنچوں میں سے کتنے لوگ مرے ساتھ ساتھ اس سدھار پر چلنے کا بچن دیتے ہیں۔

    (سوائے جھکو کے ساتھیوں کے جن کے ہاتھ میں نریل یا میٹچے تھے، سب انھیں توڑ توڑ کر پھینک دیتے ہیں۔)

    مجمع: (شور) ہم! ہم! ہم! کاکا ہم بھی!

    (ایک بوڑھا اپنا مٹیچا لے کر آہستہ آہستہ مجمع سے کھسکتا ہے)

    متیٔ کی ماں: اور تم کہاں جورن کے سمان بھاگے جات ہو متیٔ کے پتا؟ (اور تم کہاں چوروں کی طرح بھاگے جا رہے ہو متیٔ کے باپ؟)

    (سب کی نظریں بھاگنے والے کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ بیساختہ قہقہہ پڑتا ہے۔ بوڑھا بیوی کو بڑے غصہ سے دیکھتا ہے۔ پھر مٹیچا زور سے زمین پر پٹک دیتا ہے۔)

    متیٔ کا باپ: لے! یہ لے! اب تو تو کھس ہوئی؟ پر اب جو پیٹ میں درد اٹھےگا۔۔۔

    متیٔ کی ماں: ارے ہم استریوں کو پیٹ کی پیرا سے کا ڈراوت ہو؟ استریوں ہی کی پیرا کا پھل تم ہوں ہو اور ای سب بھی! (ارے ہم عورتوں کو پیٹ کے درد سے کیا ڈراتے ہو۔ عورتوں ہی کے درد کا پھل تو تم بھی ہو اور یہ سب بھی) (زوردار قہقہہ)

    ہکو: (ہاتھ اٹھاکر) تو بھائیو، اگر اسی طرح شریر کی پیرا اور من کا سکھ چاہتے ہو تو ہم کو سرپنچ بناؤ۔ جب تک یہ گاؤں بھارت کا سب سے اچھا گاؤں مان لیا نہ جائے نہ میں چین سے بیٹھوں گا، نہ تمھیں سکھ سے بیٹھنے دوں گا۔ بس ہر سَمے کام، ہر سمے کام! نیند حرام، آرام حرام! وہی بات جو جنتا کا پیارا نہرو کہتا ہے۔ کام نہ کرنا ہو تو میرا سلام، چن لو جھک جھک بک بک کو۔

    (قہقہہ، ہکو سلام کرکے بیٹھ جاتا ہے۔ گوپال کھڑا ہو جاتا ہے۔)

    گوپال: استریو، پرشو! تم نے جھکو اور ہکو دونوں بھائیوں کی باتیں سن لیں، اب تمہیں بتانا ہے کہ تم کسے اپنا سرپنچ چنتے ہو۔

    ایک شخص: کاکا آپ کس کو چاہتے ہیں۔؟

    گوپال: (ہنس کر) میں دونوں کو چاہتا ہوں۔ میرے دونوں میٹھے! (قہقہہ)

    متیٔ کاباپ: ارے یہ ہکو تو کھالی ہکا بند کس ہے۔ جھکو ہوگا تو پانی بھی بند کر دےگا! (قہقہہ)

    گوپال: بتاؤ کہ تم ان دونوں میں سے کسے سرپنچ چنتے ہو۔ جھکو کو کہ ہکو کو؟

    مجمع: (سوائے جھکو کے ساتھیوں کے) ہکو کو! ہکو کو!

    گوپال: تو سارے پنچوں کی یہی رائے ہے۔

    مجمع: ہاں، ہاں سارے پنچوں کی۔

    متیٔ کی ماں: (کھڑی ہو کر) اور سارے پنچنوں کی بھی! جرا ہم بھی تو دیکھیں کہ مرد پیٹ کی پیرا ہووے پر کا جنت ہن! (قہقہہ)

    (ذرا ہم بھی تو دیکھیں کہ مرد پیٹ کا درد ہونے پر کیا جنتے ہیں؟)

    پردہ

    مأخذ:

    ہمارا گاؤں اور دوسرے افسانے (Pg. 87)

    • مصنف: علی عباس حسینی
      • ناشر: اورینٹل پبلیشنگ ہاؤس، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1956

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے