Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انصاف

MORE BYسعادت حسن منٹو

    دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

    چوبدار: باادب: با ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو، شہنشاہِ عالم لنچ کے لیئے تشریف لارہے ہیں۔

    شہنشاہِ عالم کے قدموں کی بھاری چاپ سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ تشریف لاتے ہیں۔

    شہنشاہ: ہیڈ بٹلر کہاں ہے؟

    چوبدار ایک بہت بڑی ڈِش سے سرپوش اُٹھاتا ہے۔ہیڈ بٹلر پُھدک کر باہر نکلتا ہے اور عرشی سلام کرتا ہے۔

    ہیڈبٹلر: غلام سیلوٹ بجا لاتا ہے جہاں پناہ۔

    شہنشاہ: دستر خوان پر آج مابدولت کے لیئے کیا چیز حاضر ہے؟

    ہیڈ بٹلر: گوشت پلاؤ، ماہی پلاؤ، مٹر پلاؤ، نارنگی پلاؤ، متنجن، بریانی ،زردہ، روغن جوش، قورمہ، ٹماٹر گوشت، بھنڈی گوشت، مٹر گوشت، پائے کا شوربہ، قیمہ، بھیجا، چکن کٹلس، چکن چاپس، مٹن چاپس، پوٹیٹو چاپس اورخُدا جہاں پناہ کا بھلا کرئے۔ ارہر کی دال۔

    شہنشاہ: (غصے میں) ارہر کی دال، مابدولت کوبالکل پسند نہیں۔

    ہیڈ بٹلر: یورمیجسٹی۔ آج لنچ پر تین اشتراکی ولایتوں کے وزیراعظم مدعو ہیں اس لیئے۔۔۔۔۔۔

    شہنشاہ: (خوش ہو کر) مابدولت تمہاری فراست کی داد دیتے ہیں اور خوش ہو کر تمہارا منہ موتیوں سے بھر دینے کا حکم جاری کرتے ہیں۔

    ہیڈ بٹلر: میری سانس رک جائے گی عالم پناہ۔

    شہنشاہ: (مسکرا کر) تم بہت ذہین ہو۔ اچھا مابدولت تمہیں سرکا خطاب عنایت کرتے ہیں۔

    ہیڈ بٹلر: جہاں پناہ کی اس قدر افزائی نے ذرّے کو آفتاب بنا دیا۔

    شہنشاہ: اور کس صفائی سے۔ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی۔

    ہیڈ بٹلر: غلام سلوٹ بجا لاتا ہے، یورمیجسٹی۔

    دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

    چوبدار: باادب،ملاحظہ،ہوشیار،نظریں رُو بُرو،باادب، باملاحظہ،ہوشیار، ملکہ عالیہ کی سواری آتی ہے۔

    چھوٹے چھوٹے قدموں کی چاپ سُنائی دیتی ہے۔ ملکہ عالیہ کی سواری آتی ہے۔

    ملکہ: جہاں پناہ کو زیادہ دیر تو میرا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ میں اپنی خادماؤں کے سر میں جوئیں ڈلوا رہی تھی۔

    شہنشاہ: امورِ سلطنت سے تمہاری یہ دلچسپی ما بدولت کے لیئے باعثِ مسرت ہوئی۔۔۔۔۔۔!

    ہیڈ بٹلر: رعایا کتنی خوش نصیب ہے کہ آپ ایسا مخلص بادشاہ اور آپ ایسی مخلص ملکہ اس پر حکمران ہیں۔

    شہنشاہ: پہلے یونہی مشہور تھا کہ فلاں بادشاہ کے راج میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے لیکن ہمارے راج میں ایسے کئی گھاٹ موجود ہیں جہاں شیر اور بکری اکٹھے پانی پیتے ہیں اور اس کو حلؤہ امکان میں لانے کے لیئے ما بدولت کو تمام شیروں کے دانت نکلوانے اور تمام بکریوں کے سینگ کٹوانے پڑے۔

    ہیڈ بٹلر: اس میں کیا شک ہے۔

    گھنٹی کی آواز بلند ہوتی ہے۔

    شہنشاہ: (چونک کر) یہ کس نے ہمیں بلایا۔ یہ کون فریادی ہے جس نے عدل و انصاف کی آہنی زنجیر کو جنبش دی؟

    ملکہ: جہاں پناہ! کیا اسی وقت تشریف لے جائیں گے؟

    شہنشاہ: اسی وقت، اسی گھڑی، جب تک ہم اس فریادی کی فریاد نہیں سُن لیں گے ارہر کی دال ہم پر حرام ہے۔ ہم ابھی جھروکے میں جا کر فریادی سے ملاقات کریں گے، ضرور کسی انسان پر ظلم ہوا ہے۔

    چور بدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

    چوبدار: باادب، با ملاحظہ،ہوشیار، نظریں روبرو، باادب، باملاحظہ ہوشیار، شہنشاہ عالم فریادی کی فریاد سننے کے لیئیتشریف لارہے ہیں۔

    شہنشاہ: ملکہ اور ہیڈ بٹلر باہر جھروکے میں تشریف لے جاتے ہیں۔

    شہنشاہ: یہ کون تھا جس نے ہمارے عدل و انصاف کی آہنی زنجیر ہلائی اور ہمارا انصاف چاہا۔

    فریادی: یہ غلام انصاف کا طالب ہے جہاں پناہ۔

    شہنشاہ: تمہارے ساتھ پورا پورا انصاف ہوگا فریادی۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرنا ہمارا کام ہے۔

    فریادی: عالم پناہ آج کل ایک سیر دُودھ میں صرف دو قطرے دُودھ کے ہوتے ہیں باقی سب پانی ہوتا ہے۔

    شہنشاہ: مطمئن رہو فریادی۔ دودھ کے یہ دو قطرے ہی علیحدہ کرکے دکھا دیئے جائیں گے۔ بولو، بے خوف و خطر ہو کر بولو کہ تمہیں کس نے دکھ پہنچایا ہے۔ کیا ملکۂ عالم کے پستول سے تمہاری بیوی۔۔۔۔۔۔؟

    فریادی: نہیں عالی جاہ! ملکۂ عالم کے پستول سے میری بیوی ہلاک نہیں ہوئی۔

    شہنشاہ: تاریخ نے خود کو نہیں دہرایا۔ یہ بھی ایک بہت بڑی بات ہے۔ بولو، تم کام کیا کرتے ہو؟

    فریادی: عالم پناہ کے سائے تلے اس غلام نے ایک بہت بڑی لانڈری کھول رکھی ہے۔

    شہنشاہ: کپڑے گھاٹ پر تم خود دھوتے ہو؟

    فریادی: نہیں عالم پناہ! یہ ذلیل کام میں نے دوسروں کے سپرد کر رکھا ہے۔

    شہنشاہ: ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ اب بتاؤ تمہیں کیا دکھ پہنچا ہے؟

    فریادی: جہاں پناہ! مجھے بہت بڑا دُکھ پہنچا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں جو میں بیان کرسکوں۔

    شہنشاہ: (تھوڑی دیر غور و فکر کرنے کے بعد) فریادی! تم کوئی فکر نہ کرو۔ ہم الفاظ کا بندوبست کیئے دیتے ہیں۔ہیڈ بٹلر؟

    ہیڈ بٹلر: غلام حاضر ہے جہاں پناہ۔

    شہنشاہ: تھوڑا ہی عرصہ ہوا۔ ہم نے سر کے خطاب سے تمہیں سرفراز کیا تھا۔

    ہیڈ بٹلر: غلام اس قدر افزائی کا شکریہ ادا کر چکا ہے۔

    شہنشاہ: اب خود کو اس قدر افزائی کا حق دار ثابت کرو۔ ہم تمہیں وزیر الفاظ کا رتبہ بخشتے ہیں تاکہ تم اس فریادی کی فریاد کو مناسب و موزوں الفاظ میں ترتیب دے کر ہماری خدمت میں پیش کرو۔

    ہیڈ بٹلر: غلام اس فرض سے سبکدوش ہونے کی پوری پوری کوشش کرے گا۔

    شہنشاہ: تم مطمئن ہو فریادی؟

    فریادی: میں بالکل مطمئن ہوں عالمِ پناہ۔

    شہنشاہ: وزیر الفاظ جاؤ، فریادی کی فریاد ایک رپورٹ کی صورت میں پیش کرو۔

    ہیڈ بٹلر: کام کی اہمیت کے پیش نظر غلام ایک ماہ کی مہلت کے لیئے درخواست کرتا ہے۔

    شہنشاہ: ما بدولت دو ماہ کی مہلت عطاء کرتے ہیں۔

    ہیڈ بٹلر: شکریہ!

    فریادی: شکریہ!

    دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

    چوبدار: باادب، ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو۔ باادب، با ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو۔۔۔۔۔۔ شہنشاہ عالم دو مہینے کے بعد لانڈری والے کیس کے متعلق ہیڈ بٹلر المعروف وزیرِ الفاظ کی رپورٹ سُننے کے لیئے تشریف لارہے ہیں۔

    شہشناہ جھروکے میں تشریف رکھتے ہیں۔

    شہنشاہ: وزیرِ الفاظ! لانڈری والے فریادی کی رپورٹ مناسب و موزوں الفاظ میں تیار ہوئی؟

    ہیڈبٹلر: دو مہینے کی مسلسل محنت و مشقت اور عرق ریزی کے بعد ہی یہ ہیچمداں ایک کروڑ الفاظ کی رپورٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو پبلک کی آگاہی کے لیئے سرکاری پریس میں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہے۔

    شہنشاہ: فریادی! وزیر الفاظ کے اس کام سے کیا تم مطمئن ہو؟

    فریادی: قطعی طور پر عا لی جاہ۔۔۔۔۔۔ کام بڑے سلیقے سے ہورہا ہے۔

    شہنشاہ: وزیر الفاظ ہم تھوڑے عرصے کے لیئے تمہیں وزیر خلاصہ بنا کر اس رپورٹ کا ملخص پوچھتا چاہتے ہیں جو پبلک کی آگاہی کیلیئے سرکاری پریس میں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہے۔

    ہیڈبٹلر: رپورٹ کا اصلی خلاصہ یہ ہے عالم پناہ! فریادی ایک بہت بڑی لانڈری کا مالک ہے۔ اس بہت بڑی لانڈری میں تمام کپڑے صابن سے نہیں کسی اور چیز سے دھوئے جاتے ہیں جس کا نسخہ صرف فریادی کو ہی معلوم ہے۔

    فریادی: یہ نسخہ سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے عالم پناہ۔

    شہنشاہ: خوب!

    ہیڈ بٹلر: ڈرائی کلیننگ کے کام میں بھی فریادی پٹرول استعمال نہیں کرتا۔

    فریادی: غلام، پٹرول کا سارا کوٹہ بلیک مارکیٹ میں بیچ دیتا ہے۔

    شہنشاہ: بہت خوب!

    ہیڈ بٹلر: فریادی کی لانڈری میں ساڑھے سات سو دھوبی کام کرتے ہیں۔ ان کو سینہ بہ سینہ چلنے والے اصولوں کے پیشِ نظر وہی تنخواہ ملتی ہے جو مغلیہ بادشاہوں کے عہد میں دھوبیوں کو ملا کرتی تھی۔ فریادی نے چار مہینے ہوئے محسوس کیا کہ اس کے یہ تنخواہ پانے والے ملازم اس کا صابن کھا رہے ہیں۔

    شہنشاہ: فریادی نے یہ کیسے محسوس کیا؟

    فریادی: ان کا رنگ دن بدن اُجلا ہورہا تھا جہاں پناہ۔

    شہنشاہ: درست۔

    ہیڈ بٹلر: انہوں نے صابن کھانے پر اکتفا نہ کیا۔۔۔۔۔۔ اس غریب کا پٹرول بھی پینا شروع کردیا۔

    شہنشاہ: فریادی! پٹرول پینے کے متعلق کیسے معلوم ہوا؟

    فریادی: عالم پناہ۔۔۔۔۔۔ ان کی دُھواں دھار تقریروں نے غمازی کی۔

    شہنشاہ: درست

    ہیڈ بٹلر: اپنے تنخواہ پانے والے ملازمین کی اس بلاخوری اور بلا نوشی سے تنگ آکر فریادی نے ایک روز کپڑے سکھانے کے لیئے ان کو اس میدان کی طرف روانہ کردیا جہاں شہزادیاں چاند ماری سیکھتی ہیں۔

    شہنشاہ: (فکر مند ہو کر) والا شان شہزادیوں نے بے گناہوں کو ہلاک کردیا؟

    ہیڈ بٹلر: ایسا ہی ہوا جہاں پناہ۔۔۔۔۔۔ شہزادیوں کو یہ غلط فہمی رہی کہ وہ ساڑھے سات سو دھوبی جنگلی انسانوں کی وہ کھیپ ہے جووالا شان شہزادیوں کا نشانہ درست کرنے کے لیئے عالم پناہ کے احکام کے مطابق ہر ہفتے فراہم کی جاتی ہے۔

    شہنشاہ: دھوبیوں اور جنگلی انسانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے:

    ہیڈ بٹلر: عالم پناہ کا ارشاد بالکل صحیح ہے۔ساڑھے سات سو دھوبیوں کے لواحقین چنانچہ فریادی کو ان کی ہلاکت کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔

    فریادی: فریادی کا قصور صرف اتنا ہے جہاں پناہ کہ اُس نے تنگ آکر ان کو اس میدان کی طرف ر وانہ کردیا۔ جہاں والا شان شہزادیاں نشانہ درست کریں۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس ناک ہلاکت کے بعد جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ غیر ارادی طور پر اِس غلام نے جہاں پناہ کو انصاف کرنے کا ایک بہت ہی اچھا موقع بہم پہنچا دیا ہے۔

    شہنشاہ: غور کرنے کے بعد مابدولت بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ تاریخ میں اس سے پہلے جہانگیر کو ایسے موقع سے دو چار ہونا پڑا تھا لیکن ہم عہد جدید کے شہنشاہ ہیں۔۔۔۔۔۔ جہانگیری عدل فی زمانہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ خون کا بدلہ صرف خون ہے۔

    ہیڈ بٹلر: کیا والا شان شہزادیاں خاکم بدہن۔۔۔۔۔۔

    شہنشاہ: وزیرِ الفاظ! ہمیں اپنا فرض ادا کرنے دو۔

    چوبدارتین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔

    چوبدار: باادب، با ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو، با ادب،با ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو۔۔۔۔۔۔ ملکہ عالیہ کی سواری آتی ہے۔

    ملکہ عالیہ کی سواری بال کھولے ہوئے آتی ہے۔

    ملکہ: جہاں پناہ! یہ میں کیا سُن رہی ہوں؟

    شہنشاہ: خون کا بدلہ خون۔ ہماری مملکت کے ہر در دیوار سے یہی صدا آرہی ہے۔ خون کا بدلہ خون۔۔۔۔۔۔ خون خون بہا نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔!

    ملکہ: جہاں پناہ۔

    ہیڈ بٹلر: عالم پناہ!!

    فریادی: ساڑھے سات سو دھوبیوں کے لواحقین گیتی پناہ، خون کا بدلہ خون نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔ فی دھوبی پانچ سو روپے کافی ہیں۔

    شہشناہ: نہیں، مابدولت اپنے دامنِ عدل پر جہانگیر کی طرح کوئی دھبہ نہیں لگنے دیں گے۔۔۔۔۔۔ خون کا بدلہ خون ہے خون بہا نہیں۔ خون کا بدلہ صرف خون ہے۔۔۔۔۔۔ وزیر الفاظ! والا شان شہزادیوں کی تعداد کیا ہے؟

    ہیڈ بٹلر: پچھلے برس کے اعداد و شمار کے مطابق والا قدرشہزادیوں کی تعداد ایک سو بیس تک پہنچی تھی جہاں پناہ۔

    ملکہ: ان میں میری کوئی دختر شامل نہیں لیکن میں جہاں پناہ سے پھر بھی درخواست کرتی ہوں کہ۔۔۔۔۔۔

    شہنشاہ: ہمیں اپنے فرض سے سبکدوش ہونے دو ملکہ۔۔۔۔۔۔ خون کا بدلہ خون ہے۔

    فریادی: جہاں پناہ! ان ساڑھے سات سو دھوبیوں میں خون کا صرف ایک قطرہ تھا۔

    شہنشاہ: تمہیں کیسے معلوم ہے؟

    فریادی: سارا خون نچوڑ کر میں نے صرف ایک قطرۂ باقی چھوڑ دیا تھا کہ ان میں زندگی کی رمق باقی رہے۔

    شہنشاہ: مابدولت کی نگاہ عدل میں خون کے ایک قطر اور خون کے ایک سمندر میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے پیشتر کہ رجعت پسند قوتیں ہمیں گمراہ کرنے پائیں۔ مملکت کے طول و عرض میں ریڈیو اور اخباروں کے ذریعے سے اعلان کردیا جائے کہ ہم لانڈری والے کیس کا فیصلہ کرنے میں اپنی مثالی غیر جانب داری سے کام لینے کا تہیہ کرچکے ہیں۔۔۔۔۔۔خون کا بدلہ خون ہے۔۔۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ والا شان شہزادیوں کی رگوں میں ہمارا نیلا خو ن دوڑ رہا ہے لیکن اسے دھوبیوں کے سُرخ خون کا بدلہ دینا ہوگا۔۔۔۔۔۔ ہر چہارا کناف اعلان کردیا جائے کہ مابدولت نے اس سنگین مقدمے کا فیصلہ مرتب کرنے کے لیئے ایک کمیشن بٹھا دیا ہے۔

    ہیڈ بٹلر: کمیشن؟

    ملکہ: کمیشن؟؟

    فریادی: کمیشن؟؟؟

    شہنشاہ: ہاں کمیشن۔ یہ کمیشن ملک کے دو سب سے بڑے دھوبیوں، دو سب سے بڑے ڈرائی کلینروں اور چھ سب سے بڑے خطاب یافتہ سرکاری منصفوں پر مشتمل ہوگا۔ ہیڈ بٹلر جس کو ہم نے پہلے سر کا خطاب عنایت کیا تھا اور بعد میں وزیر الفاظ بنا دیا تھا۔ اس کمیشن کا صدر ہوگا۔

    ہیڈ بٹلر: غلام سے اتنا بڑا کام سرانجام نہیں ہوسکے گا یورمیجسٹی۔

    شہشناہ: مابدولت کو اس کا علم ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری صدارت میں تحقیقاتی کمیشن جونہی اپنی رپورٹ مرتب کرئے گا۔ عوام کی کامل تسلی و تشفی کے لیئے مابدولت اس کمیشن پر ایک اور کمیشن بٹھائیں گے تاکہ عدل و انصاف کی نگاہ سے کوئی گوشہ، کوئی کونہ پوشیدہ نہ رہے۔

    ہیڈ بٹلر: عالم پناہ عوام کی تشفی پھر بھی نہ ہوگی۔۔۔۔۔۔ انکار ان کی سرشت میں داخل ہے۔

    شہشناہ: (فکر مند ہوکر) عوام کی تشفی بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ سب سے مقدم ہے۔۔۔۔۔۔ ہم اس وقت کوئی فیصلہ مرتب کرنے کے لیئے تیار نہیں۔ جب تک اس معاملے میں ہماری تشفی نہ ہو کہ عوام ہماری طرف سے بالکل متشفی ہیں۔۔۔۔۔۔

    ہوالشافی کہہ کر چنانچہ ہم سب سے پہلے، سب سے ضروری کمیشن بٹھاتے ہیں۔

    اس کا نام شافی کمیشن ہوگا۔

    ہیڈ بٹلر: عالم پناہ زندہ باد!

    ملکہ: عدل و انصاف پائندہ باد!!

    فریادی: شافی کمیشن جوئندہ باد!!!

    مأخذ:

    تلخ و ترش و شیریں

      • اشاعت: 1954

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے