Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انتظار

MORE BYسعادت حسن منٹو

    (گھڑی آٹھ بجاتی ہے)

    منتظر آدھا گھنٹہ........ صرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ........ یہ ٹن کی آخری آواز دیتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی۔اور ........ اور........

    منتظر کا منطقی وجود........ اگر وہ نہ آئی ........ یعنی اگر........

    منتظر: کیوں نہ آئے گی........ ضرور آئے گی(پھیکی ہنسی)........ یہ اندیشے بالکل فضول ہیں(اپنے آپ کو تسلی دینے کے اندازمیں)اُس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔

    منطقی وجود: وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔

    منتظر: کتنا لغو خیال ہے........ کسی کے شعر کا ایک مصرعہ ہو شاید‘ لیکن کس قدر عامیانہ ہے........ ایسی شاعری ہی نے تو........ وہ ضرور آئے گی اور شاعری ........ شاعری اچھی چیز ہے........ تپائی پر جو یہ گلدان پڑا ہے میں نے اس میں ابھی تک پھول کیوں نہ سجائے(پُھولدان اُٹھاتا ہے)........ یہ پھولدان اسے پسند ہے آج وہ اُسے اور بھی پسند کریگی۔نرگس اور بنفشہ کے پھول اُسے بہت بھاتے ہیں........ یہاں پر یہ ٹھیک رہے گا........ کیوں۔(پُھولدان پھر وہیں رکھ دیتا ہے۔سیٹی بجاتا ہے)

    منطقی وجود: (اسی دُھن میں یہ شعر گاتا ہے)

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

    کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

    (وقفہ)

    منتظر: (ایک ایک لفظ کر کے)وہ........ آئیں۔گھر۔میں۔ہمارے۔خُدا۔کی۔قدرت۔ ہے ۔خُدا کی قدرت ہے(چونک کر) خُداکی قدرت۔خُداکی قدرت یعنی اُس کا آنا بالکل اچانک تھا۔ شاعر کو اس کی آ۔۔۔مد کا یقین نہیں تھا بھئی ہو گا مگر ہمیں تو پورا پورا یقین ہے........ کیوں؟

    منطقی وجود: ........ اگر........ اگر........

    منتظر: ہٹاؤ جی اس خیال کو........ ہاں........ تو میں کیا سوچ رہا تھا........ سوچ کیا رہا تھا؟........ سوچنے کی بات ہی کیا ہے؟ وہ ضرور آئے گی........ چند منٹوں کی بات ہے۔

    منطقی وجود: ایک گھنٹے میں ساٹھ منٹ ہوتے ہیں........ ساٹھ۔

    منتظر: ستائیس منٹ اور رہ گئے ہیں........ صرف ستائیس........ (گھڑی کی ٹِک ٹِک بلند ہو کر پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے) ہر چیز قرینے سے رکھی ہوئی ہے پُھولدان بھی سج گیا سگریٹ سُلگا لیتا ہوں۔ ایک سگریٹ کم ازکم دس منٹ جلتا رہے گا۔

    منطقی وجود: ساڑھے سات منٹ۔

    منتظر: تو کیا ہوا........ (سگریٹ سُلگاتا ہے)

    منطقی وجود: کش زور سے کیوں لے رہے ہو۔

    منتظر: ساتھ ساتھ ٹہلتا بھی رہوں تو ٹھیک رہے گا(ٹہلتا ہے)ہاں........ تو یہ بات ہے۔

    منطقی وجود: کیا بات ہے تم کھوئے کھوئے سے کیوں ہو؟

    منتظر: کوئی بات نہیں‘ بات کیا ہو گی۔ایک صرف اتنا ڈر ہے کہ........

    منطقی وجود: موسم خراب ہے۔

    (کڑک سی بلند ہوتی ہے)

    منتظر: (گھبرا کر) یہ بجلی کی کڑک تو نہیں ہے؟

    منطقی وجود: سگرٹوں کا ڈبہ جو آپ نے ابھی ابھی کھولا تھا اُس کا ڈھکنا آپ کے پیر کے نیچے آگیا ہے۔

    منتظر: (ہنستا ہے) آواز بالکل بجلی کی سی پیدا ہوئی........ کیا ڈھکنا ہی تھا؟ ڈھکنا ہی تھا........ (کھڑکی کھولتا ہے)موسم زیادہ خراب تو نہیں ہے بادل؟ وہ اب تو گھر سے چل پڑی ہو گی۔ یہ سگریٹ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ اُنگلیوں میں مسلا گیا ہے۔

    منطقی وجود: دوسرا سُلگالو۔یوں تھوڑا ساوقت بھی خرچ ہو جائے گا۔

    منتظر: نہیں زیادہ سگریٹ میں نہیں پیؤں گا‘ مُنہ سے بُو آئے گی۔بہت ممکن ہے اسے ناگوار معلوم ہو۔ اس نے ایک بار کہا بھی تو تھا........

    وہ: (یعنی جس کا انتظار کیا جارہا ہے‘ اس کی آواز آتی ہے)تمہیں میری ہی جان کی قسم جو اب سے سگریٹ پیو........

    منتظر: مجھے عدو لِ حُکمی نہیں کرنی چاہیئے۔ (وقفہ)

    ؒ منطقی وجود: سگریٹ بُجھا دیا اب یہ وقت کیسے کٹے گا۔

    منتظر: یہ گرا موفون باجا........ ریکارڈ نکال کر باہر رکھ دوں بہت ممکن ہے وہ بجانا چاہے۔

    منطقی وجود: ایک رکارڈ پورے تین منٹ تک بجتا رہے گا۔

    منتظر: تین منٹ........ (ریکارڈ لگاتا ہے)........ تین منٹ تک بجتا رہے گا۔ کیا بُرا ہے........ موسیقی مجھے پسند ہے۔

    (ریکارڈ ربجاتا ہے)

    رات کٹی گن گن کے تارے

    (ریکارڈ پر سے ایک دم سُوئی ہٹا لیتا ہے)

    منتظر: کیسا واہیات ریکارڈ ہے۔ رات کٹی گن گن کے تارے۔

    منطقی وجود: ابھی تو آٹھ بج کر کچھ منٹ ہوئے ہیں ساری رات پڑی ہے۔

    منتظر: ابھی آٹھ بجکر کچھ منٹ ہی ہوئے ہیں........ تو اس کا کیا مطلب ہے۔ میں ........ میں اتنا بیتاب کیوں ہو رہا ہوں........ آجائے گی........ ایسی باتوں ہی سے تو ان لوگوں کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ میں اُس کا انتظار بالکل نہیں کروں گا۔ کُرسی پر بیٹھ جاتا ہوں میز پر یہ سفید کاغذ رکھا ہی ہے۔ اس پر اس مہینے کا حساب لکھنا شروع کر دیتا ہوں........ ہاں........ سگریٹ پانچ روپے........سگریٹ پانچ روپے........ (یہ آواز فیڈ ہوتی جاتی ہے اور جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اُسکی آواز اُبھرتی آتی ہے)۔

    وہ: تمہیں میری جان کی قسم جو اب سے سگرٹ پیؤ........ دیکھو تو کتنے کمزور ہو رہے ہو........ بادام کھایا کرو۔

    منتظر: اسے میرا کتنا خیال ہے........ اب آبھی جائے مگر........

    منطقی وجود: ساڑٰھے آٹھ بجنے میں ابھی کافی دیر ہے۔

    منتظر: میں سمجھتا ہوں یہ گھڑی فاسٹ ہے........ کیا پتہ ہے کہ........

    منطقی وجود: گھڑی سنو ہو۔

    منتظر: اجی نہیں‘ اس گھڑی کا وقت بالکل صحیح ہے۔ ابھی پرسوں ہی ٹھیک کرائی ہے........ (وقفہ)........ کہیں اُسکی گھڑی میں فرق نہ ہو۔

    منطقی: ایسا ہو سکتا ہے۔

    منتظر: تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ پانچ نہیں دس منٹ کا فرق ہو گا۔

    منطقی: اس وقت سے لے کر اب تک دس منٹ مشکل سے گزرے ہیں۔ انہیں ابھی دس منٹ نہیں گزرے۔

    منتظر: گھڑی میں ضرور خرابی ہے........ کھول کر نہ دیکھ لوں۔

    منطقی وجود: کھول کر آپ کو کیا نظر آجائے گا۔

    منتظر: کچھ نہیں‘ میں نے تو یہ کہا تھا کہ چلو یوں تھوڑا ساوقت گزر جائے گا۔

    منطقی وجود: تو چلیئے پُرزے کھول کر بیٹھ جائیے مگر یاد رہے اس دن کی طرح پھر جڑیں گے نہیں۔

    منتظر: (ہنستا ہے)کیسے کیسے عجیب خیال آتے ہیں(ہنستا ہے پھر گاتاہے کیسے کیسے عجیب خیال آتے ہیں........ نہیں وزن ٹھیک نہیں ہے........

    منطقی وجود: یہ آپ کو شاعری کی کیا سوجھی؟

    منتظر: (خوب ہنستا ہے یہ شاعری بھی اچھی رہی........ اب آبھی جائے۔ وقت کیا ہواہے........ ساڑھے........

    منطقی: ابھی ساڑھے کہاں........ سوا کہیئے سوا۔

    منتظر: مجھے کوئی کام بھی نہیں ہے آج۔

    منطقی: اس مہینے کا حساب لکھنا تھا۔

    منتظر: جی لعنت بھیجو حساب کتاب پر یہ بھی کوئی وقت ہے حساب کتاب کا........ لیکن ایسے وقت میں کرنا کیا چاہیئے۔

    منطقی: اُس کو ایک خط لکھنا شروع کر دو۔

    منتظر: بالکل ٹھیک........ (وقفہ)........ اس پیڈ کا کاغذ اچھا رہے گا۔

    منطقی: ہاں ........ خوشبودار ہے۔

    منتظر: کیا لکھوں........ (وقفہ)........ مضمون سمجھ میں نہیں آتا۔

    منطقی:لکھو‘ میں تمہارا بہت انتظار کرتا رہا۔

    منتظر: اور جب وہ آئے تو یہ خط اُس کو دیدوں........ خیال اچھا ہے........ تو لکھتا ہے........ (وقفہ)........ میرا خیال ہے کہ اب وہ گھر سے چل پڑی ہو گی۔یہ خط اُس کے آنے تک ختم نہ ہو گا۔

    منطقی: تم خط لکھنا شروع تو کرو۔

    منتظر: میری پیاری........ تم نے آج وعدہ کیا تھا کہ ساڑھے آٹھ بجے آؤ گی۔ میں تمہارا شدت کے ساتھ انتظار کرتا رہا........

    منطقی: کتنی پُھسپُھسی عبارت ہے۔

    منتظر: پُھسپُھسی ........ نہیں تو........ (وقفہ)........ واقعی پُھسپُھسی ہے........ اب تو وہ آتی ہی ہو گی۔(کاغذ پھاڑ دیتا ہے)خط کی کوئی ضرورت نہیں میں اس کو زبانی بتا دُوں گا۔

    منطقی: بشرطیکہ وہ آجائے۔

    منتظر: یہ شرط کیسی........ وہ ضرور آئے گی۔

    منطقی وجود: اگر ........ اگر........

    منتظر: نہیں۔نہیں۔

    منطقی: ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے۔

    منتظر: کیسے بیہو وہ خیال ہیں۔

    منطقی: اگر وہ نہ آئی تو........

    منتظر: ضرور آئے گی

    منطقی: دیکھ لیں گے۔

    (دستک کی آواز)

    منتظر: (خوش ہو کر........ لو وہ آگئی۔(گھبرا کر)سب چیزیں ٹھیک ہیں نا؟........

    سگرٹوں کا ڈبہ؟........ اسے کہاں رکھوں ؟........ کون ہے؟ ........ اس کا ڈھکنا کہاں ہے؟........ لعنت!........ خالی ہی کہیں چھُپا دیتا ہوں۔ اور ........ اور یہ آیا!........ بس اب سب ٹھیک ٹھاک ہے........

    منطقی: اپنا دم تو دُرست کر لو۔ہانپ رہے ہو۔

    منتظر: دم سب ٹھیک ہے........ میرا خیال ہے اس کو تھوڑا سا ڈرنا چاہیئے۔

    (دروازہ کھولتا ہے اور پھر ایکدم ڈرانے کی خاطر’’ہپ‘‘کرتا ہے)

    اخبار والا:۔ ڈرے ہوئے اندا ز میں........ اجی صاحب۔آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا........ اُف۔

    منتظر: تم........ ت........ و ........ تم........ تم کون ہو........ تم اخبار والے کیوں ہو؟........ جاؤ یہاں سے۔

    اخبار والا: حضور یہ پوچھنے آیاتھاکہ دونوں اخبار اشٹیٹشمین اور ہندوستان ٹیمز لایا کروں یا اکیلا اشٹیٹشمین........ جیسا آپ حکم دیں۔

    منتظر: جتنے بھی ہوں لے آیا کرو۔

    اخبار والا:۔ بہت اچھا سرکار۔

    (اخبار والا چلا جاتا ہے۔ دروازہ بند کر دیا جاتا ہے)

    منتظر: اس اخبار والے کو ابھی اسی وقت آنا تھا........ کمبخت ڈر گیا تھا (ہنستا ہے)

    (ہولے ہولے دستک دینے کی آواز)

    منتظر: (ہنسی روک کر)آگئی........ آگئی........

    (دروازہ کھولتا ہے اور پھر ایک دم ’’ہپ‘‘کرتا ہے)

    اخبار والا:۔(ڈرے ہوئے انداز میں)صاحب........ یہ........ یہ........ آپ بار بار مجھے کیوں ڈراتے ہیں۔

    منتظر: وہ!........ تم کیا چاہتے ہو؟ ........ اب پھر کیوں آئے ہو؟........ خداکے لیئیجاؤ۔

    اخبار والا: صاحب یہ پوچھنے آیا تھا کہ اُردو کے اخبار بھی لے آیا کروں........

    منتظر: فارسی‘عربی‘گجراتی‘مرہٹی‘پنجابی‘سب زبانوں کے لیئے آیا کرو مگر خدا کے لیئے اس وقت جاؤ۔

    (دروازہ بند کر دیتا ہے)

    منتظر: حد ہو گئی ہے۔

    منطقی وجود: بڑے شرم کی بات ہے وہ دل میں کیا کہتا ہو گا۔

    منتظر: اجی ہٹاؤ........ لیکن میں کہتا ہوں وہ ابھی تک آئی کیوں نہیں کہیں ایسا تو نہیں ہو گیا........

    منطقی وجود : کہ وہ بھول گئی ہو۔

    منتظر: ایسا بھلا ہو سکتا ہے بس اب وہ آتی ہی ہو گی۔یہاں سے اُس کا گھر بھی تو کافی دُور ہے۔ اور بہت ممکن ہے پیدل آئے۔

    منطقی: تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ بہت دیر کے بعد آئے گی۔

    منتظر: میرا مطلب یہ تو نہیں تھا۔ وہ گھر سے بہت پہلے کی چل پڑی ہو گی گھڑی........ گھڑی........ یہ گھڑی ضرور خراب ہو گئی ہے........ دیکھو نا اس کی سیکنڈ کی سوئی کتنی ہولے ہولے چلتی ہے۔

    منطقی: سامنے کلاک موجود ہے۔

    منتظر: دونوں کا وقت مجھے صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ خیر کل پتا لگ جائیگا ........ ابھی تک دس منٹ باقی ہیں........ گُزر کتنے چُکے ہیں۔

    منطقی: سترہ........ تیرہ ابھی باقی ہیں۔

    منتظر: میں دیوانہ ہو جاؤنگا۔

    منطقی: کیا کہا۔

    منتظر: کچھ بھی نہیں........ تو یہ ناول پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔

    (لکڑی کے ساتھ کوئی چیز ٹکراتی ہے)

    منتظر:(اُچھل کر)........ لو وہ آگئی........ آیا۔

    منطقی: آپ کا پیر کُرسی کے نچلے ڈنڈے کے ساتھ ٹکرایا ہے۔ دستک نہیں ہوئی۔

    منتظر: پھر ٹکرائے گا........ اُٹھ کھڑا ہوتا ہوں........ ٹہلتا رہوں گا اور پڑھتا رہوں گا۔

    (بے قراری کے ساتھ ٹہلتا ہے........ گھڑی کی ٹکِ ٹکِ کی رفتار مدھم ہوجاتی ہے مگر آواز بُلند ہو جاتی ہے)

    منتظر: کچھ سمجھ میں نہیں آتا عجب اوٹ پٹانگ عبارت ہے۔(کتاب بند کرنے اور میزپر رکھنے کی آواز)........ پھر پڑھوں گا۔

    منطقی وجود: دل بیٹھتا کیوں جا رہا ہے۔

    منتظر: کیا معلوم........ پانی پیتا ہوں(پانی پیتا ہے)........ تلخی........ کس قدر تلخی ہے حلق میں........ میرا خیال ہے کہ ٹھیک وقت پر آئے گی پورے ساڑھے آٹھ بجے(چونک کر)ابھی ساڑھے آٹھ نہیں بجے۔میں........ میں بیٹھ جاتا ہوں(گھڑی بڑے بڑے وقفوں کے بعد ٹِک ٹِک کرتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیکنڈ لمبے ہو گئے ہیں) مجھے کچھ ہو گیا ہے۔

    منطقی وجود: پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔

    منتظر: پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔(میزپر اُنگلیوں سے ڈھول بجاتا ہے) یہ میں کیا کر رہا ہوں۔(گھڑی کی بھیانک آواز)

    (اُٹھ کر اضطراب کے ساتھ ٹہلنا شروع کر دیتا ہے)

    منطقی وجود: پیرلڑکھڑا رہے ہیں۔

    منتظر: تو اچھا بھلا بیٹھا تو تھا........ اُٹھ کر چلنے کیوں لگا۔حلق سوکھ رہا ہے۔لیکن اب تو اس کے آنے میں کوئی دیر نہیں چند منٹوں کی........

    منطقی وجود: چند منٹوں کی جن میں ........ (گھڑی لمبے لمبے سانس لیتی ہے)

    (کاغذ کھڑ کھڑاتا ہے)

    منتظر: ہوا کتنی تیز ہے........ کیلنڈر کا کاغذ کھڑ کھڑا رہا ہے۔

    (برتن گِرنے کی آواز)

    منتظر: اس میری ہمسائی کے گھر میں ہر وقت برتن ہی گرتے رہتے ہیں۔

    منطقی: آج تمہارے کان بڑے تیز ہیں

    فریبِ آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی

    ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے

    منتظر: ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے........ آوازِ پا........ دل کی دھڑکن........ (گھڑی زیادہ لمبے لمبے سانس لیتی ہے)........ یہ میرے دل کو کچھ ہو گیا ہے یا کلاک خراب ہو گیا ہے........ میرا حلق بھی سوکھ رہا ہے........ ابھی وقت نہیں ہوا۔(اضطراب کے ساتھ ٹہلتا ہے)

    (دروازے پر دستک)

    منتظر: (کمزور آواز میں)........ آگئی........ آگئی........ خوشی سے میری آواز ہی نہیں نکلتی........ دروازہ........ دروازہ........

    منطقی: دروازہ آپ کے سامنے ہے۔

    منتظر: ارے ہاں........ آیا........ آیا۔

    (دروازہ کھولنے کی آواز)

    دوست: السلام علیکم۔

    منتظر: (تُتلا کر) دو دو........ وعلیکم السلام ۔ک۔ک۔ک۔کیسے تشریف لائے۔

    دوست: میں تم کو اس گھوڑی کی بابت کچھ بتانے آیا تھا۔

    منتظر: گھو ۔گھو۔گوڑی۔

    دوست: اماں وہی جس کی بابت کالے خاں کہتے تھا کہ بڑی دولتیاں جھاڑتی ہے۔ بھئی تھی بڑی منہ زور........ ایڑی نہیں جمنے دیتی تھی۔بگدھریاں کرتی تھی

    بگدھریاں۔

    منتظر: بگ........ دھریاں........ جی

    دوست: مُنہ کی بہت کڑوی تھی۔الف ہو جاتی تھی الف۔

    منتظر: جی........ کسی سلو تری کے حوالے کر دی ہوتی۔

    دوست: تم تو گھاس کھا گئے ہو........ کہاں کا سوار کہاں کا سلوتری۔قدم رکاب میں گیا اور بگٹٹ ہو گی........ اور مجھے تو پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتی تھی۔ایسی چمکتی تھی جیسے بجلی........

    منتظر: میں........ میں........

    دوست: کا ٹھیا واڑکھیت کی تھی نا........ چھوٹے تو سر پٹ جائے۔انجر پنجر ڈھیلے کر دے........

    منتظر: میں........ میں........

    دوست: یہ میں میں کیا کرتے ہو۔

    منتظر: میں بیمارہوں........ سخت بیمارہوں........ آپ........ آپ........ وہ........ ساڑھے آٹھ بجنے والے ہیں۔

    دوست: (فکر مند لہجہ میں) تم بیمار ہو لیکن بھئی عجیب بیوقوف ہو۔ مجھ سے تم نے پہلے کیوں نہ کہا........ اب اطمینان سے اپنا سارا حال سُناؤ۔ مجھے کوئی خدمت بتاؤ بھئی واللہ کمال کر دیا........ اور ہاں‘ یہ ساڑھے آٹھ بجے تم نے کیا کہا تھا؟

    منتظر: (مُردہ آواز میں)ساڑھے آٹھ بجے........ ساڑھے آٹھ بجے مجھے دوا پینی ہے۔

    دوست۔لاؤ میں پلا دیتا ہوں........ کہاں ہے دوا........ ساڑھے آٹھ بجنے میں اب کونسی دیر ہے........ دوا کہاں ہے؟

    منتظر: نہیں نہیں میں خود پی لونگا۔آپ تکلیف نہ کریں........ آپ ........ آپ ........ آپ آجائیے۔

    دوست: میں تمہیں یہاں بیمار چھوڑ کر کیسے جاسکتا ہوں؟

    منتظر: میں........ میں........ میں بیمار نہیں ہوں........ میں ابھی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ جائیے........ وہ خُداکے لیئے آپ جائیے مجھے دل کا دورہ پڑ جائے گا۔

    دوست: دل کا دورہ........ بھئی اب تو میں ہرگز نہیں جاؤں گا........ بتاؤ دوا کہاں ہے؟

    منتظر: دوا میرے پاس نہیں ہے........ آپ جائیے........ خُداکیلئے جائیے۔

    دوست: تمہیں اس حالت میں چھوڑ کرمیں ڈاکٹر کے پاس بھی تو نہیں جاسکتا۔

    منتظر: کیا کہا؟........ (اضطراب بڑھتا جاتا ہے۔گھڑی کی آواز یا وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہے)........ کیا کہا؟........ آپ ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جائینگے؟........ میں........ میں مر جاؤں گا........ خدا کے لیئے ڈاکٹر کے پاس دوڑے جائیے۔ میری حالت بہت خراب ہے........ میری ........ حالت........ بہت........ نازک ہے........ جائیے........ (آواز کمزور ہوتی جاتی ہے)۔

    دوست: غش طاری ہو گیا........ کیا ہوا؟........ ڈاکٹر؟........ کہاں ملے گا ڈاکٹر۔گھبراہٹ کے عالم میں دوڑتا جاتا ہے) اب کوئی ڈاکٹر مل جائے اس وقت(چلا جاتا ہے)

    (گھڑی اصلی حالت میں ٹِک ٹِک کرتی ہے۔ یہ آواز ڈیڑھ سیکنڈ تک جاری رہتی ہے........ آخر میں کلاک میں خرخراہٹ پیدا ہوتی ہے اور ایک ٹن کی آواز آتی ہے اس ٹن کی گونج تھوڑی دیر قائم رہتی ہے۔ پھر گھڑی کی ٹِک ٹِک بالکل بند ہو جاتی ہے اور ایک سیکنڈ تک مکمل خاموشی طاری رہتی ہے........ اس خاموشی کے بعد دروازہ کھلتا ہے اور جس کا انتظار کیا جارہا ہے وہ آتی ہے۔

    دیکھو تو کس مزے سے جناب سو رہے ہیں۔گویا ان کو معلوم ہی نہیں میں آرہی ہوں........ کافی گہری نیند سور ہے ہیں........ خُداجانے کہاں سے گھومتے گھامتے تھک کر آئے ہوں گے........ (خفگی کے ساتھ)تو مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ یہاں بن بُلائے مہمانوں کی طرح کھڑی رہوں........ (دروازہ بند کر کے چلی جاتی ہے۔)

    مأخذ:

    منٹو کے ڈرامے

      • اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے