aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قانون کی حفاظت

سعادت حسن منٹو

قانون کی حفاظت

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    افراد

    سالگ رام: وکیل

    سروپ: موکل

    چمپا: وکیل کی لڑکی

    ساوتری: وکیل کی بیوی

    اور منشی

    پہلا منظر

    ایک بڑا کمرہ جیسا کہ عام طور پر کامیاب وکیلوں اور بیرسٹروں کا ہوتا ہے اس کے وسط میں ایک بہت بڑا میز ہے جس پربیشمار کاغذات پڑے ہیں۔ کچھ پلندوں کی صورت میں، کچھ بکھرے ہوئے اور کچھ ٹریز میں، سامنے ریک میں بھاری بھر کم کتابیں رکھی ہیں۔ کمرے کی دیواروں کے ساتھ بڑی بڑی الماریاں ہیں جو قانونی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں اس میز کے ساتھ گھومنے والی کرسی پر وکیل صاحب بیٹھے ہیں۔ ان کے ایک طرف فرش پر انکا منشی چشمہ چڑھائے ڈیسک کے پاس بیٹھا ہے اور کاغذات دیکھنے میں مصروف ہے۔ وکیل صاحب کے سامنے ان کا موکل بیٹھا ہے جو اپنی گفتگو ختم کر چکا ہے اور جانے کے قریب ہے۔

    وکیل: منشی جی۔ ان کے مقدمے کی تاریخ وغیرہ نوٹ کرلو اور دیکھو کل مجھے یاد سے یہ کاغذات دے دینا تاکہ میں ان کا مطالعہ کروں۔۔۔۔۔۔ آج تاریخ کیا ہے؟

    منشی: آٹھ!

    وکیل: مہینہ؟

    منشی: مارچ!

    وکیل: سن؟

    منشی: چالیس!

    وکیل(موکل سے) معاف کیجئے گا۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہے۔ کثرت کار کے باعث مجھے بہت سی باتیں بھول جاتی ہیں۔ کیا کہا تھا منشی جی سن کیا ہے؟ چالیس۔ آٹھ مارچ سن چالیس۔۔۔۔۔۔ یہ لیجئے رسید(موکل رسید دیتا ہے) آپ کا اسمِ گرامی، نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہاں لکھا توہے۔۔۔ ہاں مسٹر نرائن اب آپ تشریف لے جاسکتے ہیں۔پرماتما نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔

    نرائن: (اٹھ کر) اچھا نمسکار وکیل صاحب!

    وکیل: نمسکار!

    (نرائن چلا جاتا ہے۔ وکیل میز پر کتابوں کو اُلٹ پلٹ کرتا ہے)

    وکیل: (ایک کتاب ٹرے سے اُٹھاتے ہوئے) ہاں منشی جی اب کیا ہے؟

    منشی: ایک اور موکل باقی رہ گیا ہے۔ نوجوان چھوکرا ہے۔ کہتا ہے کہ آپ سے کوئی قانونی مشورہ کرنا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی ویسی بات کر بیٹھا ہے۔

    (فرش پرسے اُٹھتا ہے اور دروازے کی جانب چلتا ہے)

    وکیل: یہاں جو بھی آتا ہے۔ ایسی ویسی بات ہی کرکے آتا ہے۔ بھیج دو اسے اندر۔

    (منشی باہر جا کر ایک نوجوان آدمی کو ساتھ لاتا ہے)

    سروپ: گڈ مارننگ

    وکیل: گڈ مارننگ

    (منشی اپنی جگہ بیٹھ جاتا ہے)

    سروپ: (کرسی پربیٹھ کر) میں نے اپنے ایک دوست سے آپکی بہت تعریف سنی ہے۔ ویسے اخباروں میں بھی آپ کا نام پڑھتا رہا ہوں۔ مجھے دراصل آپ سے ایک قانونی مشورہ لینا ہے۔

    وکیل: بڑے شوق سے۔ مگر آپ کو معلوم ہونا چا ہیئے کہ میری فیس بہت زیادہ ہے۔

    سروپ: کچھ بھی زیادہ نہیں۔۔۔۔۔۔ میں دگنی فیس دینے کے لیئے تیار ہوں اگر آپ مجھے کوئی ایسا راستہ بتائیں۔۔۔۔۔۔ مگر ٹھہریئے۔۔۔۔۔۔ پہلے آپ یہ بتائیے کیا اچھا قانون دان قانون توڑ سکتا ہے؟

    وکیل: کیوں نہیں قانون بنائے ہی اس لیئے گئے ہیں کہ توڑے جائیں۔اچھا قانون دان جب چاہے قانون کو توڑ مروڑ سکتا ہے۔

    سروپ: تو میں عرض کروں میں کیا چاہتا ہوں؟

    وکیل: فرمائیے!

    سروپ: میرا نام رام سروپ ہے۔۔۔۔۔۔ میں بی اے میں پڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی سے مجھے پریم ہوگیا ہے جس کا نام۔۔۔۔۔۔ میں بتا دوں تو کوئی حرج تو نہیں ہوگا؟۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ آپ ہی تک رہے گا نا؟

    وکیل: صاحبزادے! یہاں کنویں کے کنویں خالی کردیئے مگر لب خشک رہے کہو جوکچھ تمہیں کہنا ہے۔ بے خوف ہوکے کہو۔ ڈاکٹروں اور وکیلوں کو سب بھید بتانے پڑتے ہیں۔

    سروپ: ہاں تووکیل صاحب بات یہ ہے کہ مجھے ایک لڑکی ہے جس کا نام چمپا ہے بے حد محبت ہوگئی ہے۔ اس کو بھی مجھ سے پریم ہے۔

    وکیل: تو مشکل کیا ہے۔۔۔۔۔۔کیا کہا۔۔۔۔۔۔لڑکی کا نام کیا ہے؟

    سروپ: چمپا۔۔۔!

    وکیل: ہوں۔۔۔۔۔۔ تو اب مشکل کیا آن پڑی ہے۔۔۔۔۔۔ تم کو۔۔۔۔۔۔؟

    سروپ: جی نہیں۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر مشکل یہ ہے کہ اسکے والدین راضی نہیں ہونگے۔ اس لیئیکہ اسکی بات کہیں اور پکّی کردی گئی ہے۔ میں اب یہ چاہتا ہوں کہ اس کو اغوا کرکے لے جاؤں اور کسی دوسرے شہر میں اس سے باقاعدہ شادی کرلوں۔۔۔۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

    وکیل: اس کواغواء کرکے لے جاؤ۔ جانتے ہو اس جرم کی سزا کتنی زبردست ہے؟

    سروپ: مجھے معلوم ہے۔ مگر لڑکی رضا مند ہے یعنی جب میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی۔ جب اس کو میری دھرم پتنی بننا منظور ہے تو سزا اور جرم کا سوال ہی کہاں باقی رہتا ہے۔

    وکیل: اغواء کے بعد اگر لڑکی پر اس کے ماں باپ نے اثر ڈ الا اور اسے مجبور کیا کہ وہ تمہارے خلاف بیان دے تو سزا اور جرم کا سوال پیدا ہوسکتا ہے ایسے معاملوں میں وثوق سے کچھ نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ لڑکیاں عام طور پر والدین کے دباؤ میں آجایا کرتی ہیں۔

    سروپ: بس بس۔ آپ نے میرا مطلب سمجھ لیا۔ اسی غرض سے میں آپکی خدمت میں حاضر ہوا تھا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ کوئی ایسی ترکیب بتائیے کہ ان جھگڑوں کا خوف نہ رہے۔ یعنی کسی بات کا ڈر نہ ہو اور میں اپنا کام بڑے آرام سے کردوں۔

    وکیل: تم اس اغواء میں مجھ سے مدد لینا چاہتے ہو۔

    سروپ: بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔ میں صرف قانونی حفاظت چاہتا ہوں۔ اوّل تو یہ اغوا غیر قانونی ہے۔ اس لیئے کہ چمپا میرے ساتھ بھاگنے کو بالکل تیار ہے، دوسرے ہم ایک دوسرے سے پریم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں ایک آدھ رومانس تو ہو وکیل صاحب آپ نے دنیا دیکھی ہے آپ کو اس بات کا ضرور احساس ہوگا کہ ایسے واقعات بڑھاپے میں بڑے مزہ دیا کرتے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ کوئی ایسا گُر بتائیے جس سے بے کھٹکے اپنا کام کر جاؤں۔۔۔۔۔۔ بس لُطف آجائے۔

    وکیل: میں سمجھ گیا۔ دیکھو اس کیلئے تمہیں تین چار چیزوں کی ضرورت ہے،۔۔۔۔۔۔ لڑکی کا نام کیا ہے؟

    سروپ: چمپا۔۔۔!

    وکیل: ہاں تو چمپا سے تم اغواء کے ایک روز پہلے ایک خط حاصل کرلو جس میں وہ تم سے شادی کی درخواست کرے بس یہ لکھا ہو کہ وہ گھر والوں سے بالکل تنگ آگئی ہے اس لیئے وہ تم سے شادی کرنے کا عہد کر چکی ہے۔ چنانچہ اس غرض سے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر تمہارے پاس آرہی ہے۔ کیا وہ ایسا خط لکھ دے گی؟

    سروپ: کیوں نہیں۔ میں اس سے فوراً لکھوا لوں گا۔

    وکیل: یہ تو ایک چیز ہوئی جو کہ بہت ضروری تھی۔ اب اگر لڑکی کے ماں باپ نے یہ کہا کہ وہ بہت سا روپیہ نقد اور ہزاروں روپے کا زیور بھی ساتھ لے گئی ہے جو اس نے تمہاری تحویل میں دے دیا ہے تو اس کا جواب کیا دیا جائیگا؟ ظاہر ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہوگا مگر تمہیں پریشان تو کیا جاسکتا ہے۔ اس لیئے اس کا توڑبھی پہلے ہی سوچنا ہوگا۔

    سروپ: جی ہاں!۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں؟

    (وکیل اٹھ کر کمرے میں ٹہلتا ہے)

    وکیل: (کچھ سوچ کر) اغواء رات کو کرو گے یا دن کو؟

    سروپ: دن کو۔ اس لیئے کہ رات کو نو بجے کے بعد میں بالکل جاگ نہیں سکتا۔

    وکیل: یہ بھی اچھا ہوا۔ اچھا تو وہ لڑکی اپنے ساتھ زیور وغیرہ تو نہیں لائے گی۔؟

    سروپ: جی نہیں!

    وکیل: (ٹہلتے ہوئے) تو ایسا کرو کہ اغواکے فوراً بعد تم اپنے کسی دوست کو اس علاقے کی پولیس چوکی میں جہاں اس لڑکی کا مکان ہو بھیج دو۔ وہ تھانے میں یہ جھوٹی رپورٹ لکھوائے کہ چمپا کے گھرمیں زبردست چوری ہوگئی ہے۔ اگر ہوسکے تو وہ تھانیدار کو اس مکان تک بھی لے جائے اور آپ جائے۔

    سروپ: اس سے کیا ہوگا؟

    وکیل: پولیس وہاں جائے گی اور اسے یہ معلوم ہوگا کہ چوری کی اطلاع غلط تھی، گھر والے اپنی لاعلمی کا اظہار کریں گے اور رجسٹر میں یہ لکھا جائے گا کہ فلاں آدمی کے گھر میں چوری ہونے کی جو اطلاع ملی تھی غلط ہے۔ تاریخ اور وقت وغیرہ سب رپورٹ میں درج ہوگا جو اس بات کا ثبوت ہوگا کہ چمپا اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لائی۔

    سروپ: (خوشی سے اچھل کر) وہ مارا۔۔۔۔۔۔ کیا کہنے ہیں آپ کے وکیل صاحب۔۔۔۔۔۔ کیا نکتہ پیدا کیا ہے۔

    وکیل: (کرسی پربیٹھ کر) تم لڑکی کو کالج ہی سے بھگا کر لے جانے کا ارادہ رکھتے ہو نا؟

    سروپ: جی ہاں! لیکن اگر آپ چاہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کوئی ضروری نہیں کہ اسے کالج ہی سے اغواء کیا جائے۔ آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی کرونگا۔

    وکیل: نہیں۔ نہیں کالج ہی اچھا ہے۔تو ایک بات یہ کرنا کہ کالج سے نکل کرتم دونوں کسی فوٹو گرافر کے پاس چلے جانا اور اپنا فوٹو کھچوالینا۔

    سروپ: یہ فوٹو پاس رکھ لیا جائے۔

    وکیل: نہیں۔ اسکی ضرورت نہیں فوٹو گرافر کے پاس وہ بالکل محفوظ رہے گا۔ اگر ضرورت پڑی تو فوراً منگا لیا جائے گا۔

    سروپ: اس کی کیا ضرورت ہے۔

    وکیل: صاحبزادے!اس سے یہ ثابت ہوگا کہ اس روز لڑکی کے پاس چند زیور تھے جو اس نے پہن رکھے تھے اور اس بات کا ضرور خیال رہے کہ لڑکی اپنی ماں کو یا باپ کو کسی ذریعہ سے مطلع کردے کہ وہ اب گھر نہیں آئے گی اس لیئے کہ وہ تمہارے ساتھ جارہی ہے اور دیکھو اگر تم شادی کے دعوتی رقعے چھپوا کر اپنے دوستوں میں تقسیم کرو تو بڑا مزا رہے گا۔ شادی تم اغوا ہی کے روز کرو گے نا؟

    سروپ: جی ہاں۔

    وکیل: (اُٹھ کھڑا ہوتا ہے) تو ابھی جا کر رقعے چھپوا لو اور اپنے ان دوستوں اوررشتہ داروں کے نام پوسٹ کردو جو دوسرے شہروں میں رہتے ہوں۔ شادی کا انتظام وغیرہ تو ہو چکا ہے نا؟

    سروپ: (اٹھ کر) جی ہاں! سب انتظام مکمل ہے۔

    وکیل: تو جاؤ بے کھٹکے اپنا کام کرو۔ قانون تمہاری حفاظت کرئے گا۔

    سروپ: شکریہ وکیل صاحب بہت بہت شکریہ۔ اب تو مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ میں لوہے کے جنگلے کے پیچھے کھڑا ہوں۔ کوئی ہاتھ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا، یہ رہی آپ کی فیس۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔

    (تین نوٹ دس دس کے بٹوے سے نکال کر وکیل کو دیتا ہے۔ وکیل مسکرا کر یہ نوٹ پکڑتا ہے اور میز پر ایک بلورین پیپرویٹ کے نیچے رکھ دیتا ہے)

    سروپ: اچھا! نمسکار وکیل صاحب!

    وکیل: (مسکراتے ہوئے) نمسکار

    (سروپ چلا جاتا ہے)

    وکیل: (منشی سے مخاطب ہو کر) لوگ سمجھتے ہیں کہ افتاد آپڑنے کے بعد ہی وکیلوں سے مشورہ لینا چاہیئے۔ یہ غلط ہے۔ افتاد سے پہلے وکیل زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں اگر غلطی کرنے سے پہلے وکیل کی رائے طلب کرلی جائے تو جیل خانے اتنے آباد نہ ہوں اور نہ کچہریوں میں اتنی رونق ہو۔ وکیل کے پیشے کا صحیح مطلب آج اس چھوکرے نے سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اب بالکل محفوظ ہے۔

    منشی: جی ہاں! اس میں کیا شک ہے؟

    وکیل: (مسکراتا ہے اور پیپر ویٹ کے نیچے سے نوٹ اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا ہے) بڑا محتاط لڑکا تھا۔

    ****

    دوسرا منظر

    سالگ رام وکیل کا گھر۔۔۔۔۔۔ ڈرائنگ روم۔۔۔۔۔۔ وکیل کی بیوی ایک صوفے پر بیٹھی اونی بنیان بُن رہی ہے۔ سامنے دیوار پر ایک خوبصورت لڑکی کے فوٹو کا انلارجمنٹ خوبصورت فریم میں لٹکتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ پردہ اٹھتا ہے تو چند لمحات کے توقف کے بعد سالگ رام وکیل ہاتھ میں ایک کارڈ لیئے ہنستا ہنستا اندر داخل ہوتا ہے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    وکیل کی بیوی:(بُنتے بُنتے اپنے شوہر کی طرف دیکھتی ہے) یہ آج اتنی ہنسی کیوں آرہی ہے؟

    (وکیل جواب نہیں دیتا۔ہیٹ اتار کر ایک طرف رکھتا ہے لیکن اس دوران میں بھی اس کی ہنسی بند نہیں ہوتی)!

    وکیل کی بیوی:ضرور تم نے وہ بات سُن لی ہوگی؟

    وکیل: (ہنستے ہنستے) کونسی بات؟ میں تو شادی کا یہ کارڈ پڑھ کر ہنس رہا تھا(ہنستا ہے) اس نے مجھے ایک کارڈ بھیج دیا ہے۔ آج کل کے یہ لونڈے کتنے شریر ہوتے ہیں۔

    وکیل کی بیوی:جانے کیا کہہ رہے ہو میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہ آیا اور سنتے ہو آج کیا تماشا ہوا۔ پولیس کی چوکی سے ایک آدمی آیا۔

    وکیل: (حیرت سے) پولیس کی چوکی سے؟کیوں؟

    بیوی: یہ پوچھنے آیا تھا کہ ہمارے گھر میں کتنے کی چوری ہوئی ہے۔ ہمارا کیا کچھ چُرایا گیا ہے؟

    وکیل: (جلدی جلدی) پوچھتا تھا کہ ہمارے گھرمیں کتنے کی چوری ہوئی ہے اور۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔ تم نے کہہ دیا کہ ہمارا کچھ بھی نہیں گیا۔۔۔۔۔۔ تم نے اس سے کہہ دیا کہ ہمارئی کوئی چیز بھی نہیں چرائی گئی او میرے بھگوان۔۔۔۔۔۔چمپا کہاں؟۔۔۔۔۔۔ ارے ہاں۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی تو چمپا ہی کہا تھا۔

    بیوی: چمپا چمپا کیا کہہ رہے ہو چمپا ہوگی کالج میں۔۔۔۔۔۔ تو اور میں اس سے کیا جھوٹ بولتی۔ یہ کہتی کہ ہمارا سب گھر بار لُٹ گیا ہے۔۔۔۔۔۔ جانے کس کی چوری ہوئی اور وہ موا ہمارے پاس چلا آیا۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا’’ ہمارے یہاں چور آکے کیا کرینگے۔ ہمارا روپیہ بنک میں ہے زیور جو ہیں وہ بھی بنک میں۔۔۔۔۔۔ وہ سو روپے جو تم گھر کے خرچ کے لیئے دے گئے تھے میز کے دراز میں محفوظ پڑے تھے۔

    (وکیل کا سر چکراتا ہے اور لڑکھڑا کر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ اٹھتی ہے)

    ہے ہے تمہارے دشمنوں کوکیاہوگیا ہے؟ چمپا کے پتا۔۔۔۔۔۔ چمپا کے پتا

    وکیل: (بوکھلا کر) چمپا گئی۔۔۔۔۔۔ چمپا گئی۔۔۔۔۔۔!

    بیوی: کہاں گئی؟۔۔۔۔۔۔ بس ابھی آتی ہو گی۔۔۔۔۔۔تم یہ بتاؤ کہ تمہارے دشمنوں کو کیا تکلیف ہے۔اے راما۔۔۔۔۔۔ اے راما۔۔۔۔۔۔ ایک گلاس ٹھنڈے پانی کا لا بابو جی کے لیئے۔۔۔۔۔۔ بھاگ کے لا۔۔۔۔۔۔ بھاگ کے۔۔۔۔۔۔ ہے ہے تمہارا رنگ تو ہلدی کی طرح پیلا پڑ گیا ہے۔

    (ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے)

    بیوی: (چونگا اُٹھاکر) ہیلو ہیلو۔۔۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔۔۔ میں بول رہی ہوں۔ چمپا کیا کہا؟

    نہیں، نہیں تم نہیں جاسکتیں۔ تمہارے پتا جی بیمار ہیں۔

    وکیل: کون ہے؟۔۔۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔۔۔۔؟ چمپا ہے؟ کیا کہتی ہے؟۔۔۔۔۔۔

    بیوی: چپ بھی کرو۔ سننے تو دو۔۔۔۔۔۔ کیا کہا۔۔۔۔۔۔(تھوڑا وقفہ)۔۔۔۔۔۔ تم شادی کرنے جارہے ہو۔۔۔۔۔۔ میرے بھگوان(چیخ مار کر بے ہوش ہو جاتی ہے)

    وکیل: (بے ہوش بیوی کے پاس جا کر) ساوتری۔۔۔۔۔۔ساوتری۔۔۔۔۔۔ کیا کہا ہے چمپا نے؟ ساوتری۔ ساوتری بے ہوش ہوگئی!

    راما راما۔۔۔۔۔۔ او راما۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی تو نہیں یہاں۔۔۔۔۔۔ ساوتری۔۔۔۔۔۔ساوتری۔۔۔۔۔۔ چمپا گئی۔۔۔۔۔۔ وہ لونڈا لے گیا اسے۔۔۔۔۔۔ اور میں نے۔۔۔۔۔۔ میں نے تیس روپے لے کر اسے سارے ڈھنگ بتا دیئے۔ مجھے موت کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔ اب کیا کروں؟ ساوتری۔ ساوتری۔۔۔۔۔۔(اسکی بیوی بیہوشی میں چمپا چمپا کہتی ہے) چمپا گئی اور میں نے سارا قانون اس کے ہاتھ میں دیدیا۔۔۔۔۔۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ میں کتنا بے وقوف ہوں۔ وہ چمپا، چمپا کہتا رہا اور مجھے ذرابھی شک نہ ہوا۔ شادی کے رقعے پر اپنا نام بھی دیکھا اور میرے دماغ میں یہ بات نہ آئی۔۔۔۔۔۔ او راما۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں مر گیا ہے آج۔۔۔۔۔۔ساوتری۔۔۔۔۔۔ساوتری۔۔۔۔۔۔ خط تو اس نے لکھوالیا ہوگا۔ اس نے میرے کہے پر حرف بحرف عمل کیا ہوگا۔(اُٹھتا ہے اور ٹیلفون کرنے لگتا ہے)ٹیلیفون کروں؟۔۔۔۔۔۔ پر کسے کروں؟(ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے)۔۔۔۔۔۔ یہ کون ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کون ہے۔۔۔ ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔ مس چمپا سالگ رام۔۔۔۔۔۔ کسی نے فوٹو ووٹو تو نہیں کھینچایا یہاں سے(ریسیور رکھ دیتا ہے لیکن فوراً ہی کچھ یاد کرکے اسے اٹھا لیتا ہے) ارے ہاں فوٹو؟ چمپا اور اس کا فوٹو۔۔۔۔۔۔ یہ کون فوٹو گرافر تھا؟(غصّے سے ریسیور پٹک دیتا ہے اور بے ہوش بیوی کی طرف جاتا ہے) ساوتری۔۔۔۔۔۔ساوتری۔۔۔۔۔۔ پرماتما کے لیئے ہوش میں آؤ۔ پرماتما کیلیئے ہوش میں آؤ۔۔۔۔۔۔ اب میں بے ہوش ہونا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ساوتری۔۔۔۔۔۔ساوتری۔۔۔۔۔۔(بے ہوش ہو جاتا ہے)

    پردہ

    مأخذ:

    افسانے اور ڈرامے

      • اشاعت: 1943

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے