aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آگرہ جس کا پرانا نام اکبر آباد تھا وہ صدیوں تک شاہی رونق سے منور رہا۔ یہ شہر زمانہ قدیم سے ہی خصوصیات کا حامل رہا ہے۔ شہر جمنا ندی کے کنارے بسا ہے جو نہ صرف زمانہ قدیم بلکہ جدید دور میں بھی اپنی الگ شناخت رکھتا تھا۔ اس شہر کو سکندر لودی نے از سر نو بسایا اور پھر وہاں پر شاہوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی اور مغلوں کا وہ دارالسلطنت بھی قرار پایا۔ اگرچہ اکبر کے عہد میں آگرہ سے کچھ فاصلے پر فتح پور سیکری کو دارالخلافہ قرار دیا گیا مگر اس کے بعد پھر سے آگرہ دار السلطنت بنا اور عہد جہانگیری کا شاہد ہوا، پھر شاہجہانی دور میں آگرہ سے دارالسلطنت کو منتقل کر کے دہلی قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد یہ شہر ایک شہر کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے۔ اس کتاب میں آگرہ اور اس کے اطراف کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس میں اس کی عمارات اور قدیم دھروہر کا بھی بیان شامل ہے۔ جیسے قلعہ سرخ، تاج محل، فتح پور سیکری ،شیخ سلیم چشتی، سکندرہ۔ مگر آگرہ اور فتح پور سیکری میں جو رونق اکبر کے دربار میں تھی وہ بعد میں نظر نہیں آئی۔ اکبر کا عبادت خانہ جس میں مختلف اقوام کے علماء مباحثہ کیا کرتے تھے بڑا ہی دلچسپ ہے۔ اکبر کے دربار میں شیخ ابو الفضل، شیخ فیضی، راجہ بیربل، بیرم خان، راجہ بھگوا ن داس، عبد الرحیم خان خاناں، تان سین، خواجہ نظام الدین احمد اور ملا عبد القادر بدایونی جیسے لوگ شامل تھے جن کی موجودگی اکبری عہد اور اس کی مجالس کی رونق ہوا کرتی تھی۔ اس کتاب میں صرف اکبری عہد کے آگرہ کو بیان کیا گیا ہے اور اجمالا اس کی تاریخ کو بیان کر دیا گیا ہے۔ در اصل یہ کتاب ایک انگلش کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets