aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عمیرہ احمد پاکستان کی صفِ اوّل کی اردو ناول نگار، افسانہ نویس اور ڈرامہ نگار ہیں، جنہوں نے اپنی پُراثر تحریروں، روحانی جہتوں، اور سماجی شعور سے اردو ادب میں ایک منفرد اور دل نشین مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی تحریریں نوجوان نسل کے جذبات، روحانی کشمکش، طبقاتی تفاوت اور سماجی ناہمواریوں کا آئینہ ہیں۔
عمیرہ احمد کا تعلق سیالکوٹ، پاکستان سے ہے۔ انہوں نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور تدریسی شعبے سے وابستہ رہیں۔ ادبی سفر کا آغاز افسانوں سے ہوا، لیکن اصل شہرت انہیں ناول نگاری اور ٹی وی اسکرین کے لیے لکھے گئے ڈراموں سے ملی۔ ان کا اسلوب سادہ، پُراثر اور قاری سے براہِ راست مکالمہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ان کے مقبول ترین ناولوں میں "پیرِ کاملؒ", "آبِ حیات", "لا حاصل", "امربیل", "من و سلویٰ", "میرے خواب میرے جگنو"، اور "زالِ زار" شامل ہیں۔ ان کی تحریروں میں دین اور دنیا، روحانیت اور حقیقت، محبت اور قربانی، شک اور یقین جیسے موضوعات کو خاص انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
عمیرہ احمد کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو صرف ایک کہانی سناتی نہیں، بلکہ اسے فکری، اخلاقی اور روحانی سفر پر لے جاتی ہیں۔ ان کی تحریریں اصلاحی پہلو رکھتی ہیں اور دل پر دیرپا اثر چھوڑتی ہیں۔ ان کے کئی ناول ڈرامائی شکل میں ٹی وی پر نشر ہو چکے ہیں، جنہوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی، جیسے: "میرے پاس تم ہو", "شہرِزار", "درِشہوار" اور "زیبائش"۔
عمیرہ احمد کو اردو ادب میں وہ حیثیت حاصل ہے جو اردو ناول کو عوامی اور فکری سطح پر یکساں طور پر متاثر کرتی ہے۔ وہ ان قلم کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے اردو ناول کو نئی جہت، نئی زبان اور نئی روح دی۔