aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شیخ فرید الدین عطار کا ایک چھوٹا سا رسالہ ’’پند نامہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے. یہ رسالہ نہایت کارآمد اور اخلاق آموز نصائح پر مشتمل ہے ۔ ’’پند نامہ‘‘ کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ صرف ترکی میں اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سے اس رسالے کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’پند نامہ‘‘ زندگی کا ایک مکمل ضابطہ و دستور ہے ، جس میں ایک مرد صالح کی زندگی کے لئے کن کن امور کا لحاظ و پاس رکھنا ضروری ہے ان تمام مسائل کو عطار نے اپنے اس مختصر سے رسالے میں نہایت ناصحانہ انداز بیان میں پیش کردیا ہے ۔ اگر شیخ سعدی کی کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ نثر میں مکمل ضابطہ حیات ہے تو عطار کا ’’پند نامہ‘‘ منظوم اصول زندگی ہے ۔ زبان کے اعتبار سے بھی پند نامہ اس قدر سہل ہے کہ معمولی فارسی جاننے والا بھی اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے ۔ اتنی آسان زبان اور اتنا وقیع مضمون اور پند و نصیحت سے پر مختصر سی کتاب ایسی معلوم ہوتی ہے گویا سمندر کوزے میں بند ہے ۔
"Rumi famously quoted, “150 years after the crucifying of Mansoor Hallaj, the spiritual radiance of the former rekindled in the birth of Sheikh Fariduddin Attar.” Attar used to sell medicines and perfumes in the early stages of his life. One day a dervish chanced upon his shop, Attar had such an impression of the Darvesh that he shut his shop then and there and became a dervish himself. Later, Attar would also go on to meet Rumi. Attar wrote about 114 books, out of which only 30 have been found. Due to his liberal and progressive views, Attar also had to face a lot of troubles, his house was looted and was even thrown out. According to some legends, it was the army of Genghis Khan which slayed Attar.
Important works: 1. Pand-Nama 2. Tazkiraat-ul-Auliya 3. Mantiq-Ut-Tair 4. Qasida 5. Musibat-Nama 6. Bulbul-Nama 7. Shutur-Nama "