آئنہ عہد گذشتہ کا بچا رہ گیا ہے
آئنہ عہد گذشتہ کا بچا رہ گیا ہے
طاق نسیاں پہ ابھی ایک دیا رہ گیا ہے
کھڑکیاں سو گئیں خاموش ہوئے سارے چراغ
اک دریچہ مگر اس گھر کا کھلا رہ گیا ہے
اے ہوا اب تو نہ کر آگ اگلنے کا عمل
شاخ پر بس یہی اک پتا ہرا رہ گیا ہے
کہیں ٹھوکر سے کوئی زخم نہ آ جائے تجھے
دل ہمارا ترے قدموں میں پڑا رہ گیا ہے
اب ہے دریا میں کوئی شور نہ ہلچل کوئی
ہو کے خاموش مرا سنگ نوا رہ گیا ہے
کس لیے آئی ہے تو اجڑے ہوئے گلشن میں
اب بھی کچھ کہنے کو کیا باد صبا رہ گیا ہے
ذکر آ جاتا ہے رسماً سر محفل اکثر
اب ترا نام فقط خوف خدا رہ گیا ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ موڑ ہیں باقی غم کے
اٹھتے اٹھتے جو مرا دست دعا رہ گیا ہے
اے ہوا راستہ دے اس کو نکلنے کے لیے
بجھ گئی آگ دھواں گھر میں بھرا رہ گیا ہے
کس لیے ضد کیے ہے چھوڑ کے جانے کی مجھے
خامشی تیرے سوا پاس میں کیا رہ گیا ہے
اس کے چہرے پہ چمک ہے نہ کوئی رنگ مجیبؔ
ہاں ہتھیلی پہ مگر رنگ حنا رہ گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.