آج مجھ سا اس جہاں میں بے نوا کوئی نہیں
کس کو میں اپنا کہوں جب آشنا کوئی نہیں
سر کو دھن لوں میں کہ پیٹوں دل جگر کو کیا کروں
ہم نشیں ہمدم نہ محرم ہم نوا کوئی نہیں
یہ شکایت ہی سہی لیکن ہے اپنے بخت سے
دوستو تم سے ہمیں شکوہ گلہ کوئی نہیں
بے نیازی کی ادا آخر کو ان سے سیکھ لی
کیا چلے ہو پوچھنے جب مدعا کوئی نہیں
نقش حیرت ہیں مرے احباب تاروں کی طرح
سب کی آنکھیں ہیں کھلی پر دیکھتا کوئی نہیں
یہ تمہاری سادگی بھی تو بلائے جان ہے
عشوہ و غمزہ نہیں ناز و ادا کوئی نہیں
نقش بر دیوار ہوں آ کر تمہاری بزم میں
لوگ صورت دیکھتے ہیں پوچھتا کوئی نہیں
دیکھنے میں کس قدر دل کش ہیں رنگیں نقش گل
لوگ پھر بھی کہتے ہیں بوئے وفا کوئی نہیں
اب گلوں پر خار کو ترجیح دی جانے لگی
اس چمن میں ہم نفس بلبل ترا کوئی نہیں
یہ صلہ میری وفا کا دے کے وہ بھی چل دئے
عمر بھر کی تلخیاں ہیں آسرا کوئی نہیں
پھر کسی نے اک صدا مانوس دی ہے دیکھنا
جبکہ اس دنیا میں اپنا ہم نوا کوئی نہیں
ڈاکٹر دیوانؔ صاحب آئے بھی تو کیا کریں
اس مریض عشق کے دل کی دوا کوئی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.