آس بھی ٹوٹی نہیں ہے وسوسہ بھی کم نہیں
آس بھی ٹوٹی نہیں ہے وسوسہ بھی کم نہیں
ہاں مگر اب اضطراب دل کا وہ عالم نہیں
دینے والے شکریہ ویسے تو یہ بھی کم نہیں
میں نے مانگا تھا سمندر قطرۂ شبنم نہیں
جتنی ملتی ہے سہولت اتنی بڑھتی ہے طلب
مطمئن ہو جائے ہرگز فطرت آدم نہیں
کیسے لوٹیں گے بھلا ہم اپنی ماضی کی طرف
دل میں اب جذبہ نہیں ہے ہاتھ میں پرچم نہیں
لازم و ملزوم ہیں ایک دوسرے کے واسطے
ہم نہیں تو تم نہیں جو تم نہیں تو ہم نہیں
دھیرے دھیرے زخم بھرتے جائیں گے حالات کے
وقت سے بہتر عزیزو کوئی بھی مرہم نہیں
عمر بھر رونا پڑے گا دل لگاؤ گے اگر
عشق ایسا زخم ہے جس کا کوئی مرہم نہیں
تم نے کوشش ہی نہیں کی آبیاری کے لیے
یہ شکایت مت کرو مٹی ہماری نم نہیں
تم نمک پاشی کرو گے تو مزہ آ جائے گا
زخم وہ رکھتا ہوں جو منت کش مرہم نہیں
مدتوں رویا کریں گے یاد کر کر کے شکیلؔ
بھول جائیں گے ہمیں احباب ایسے ہم نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.