آشنا کب ہو ہے یہ ذکر دل شاد کے ساتھ
آشنا کب ہو ہے یہ ذکر دل شاد کے ساتھ
لب کو نسبت ہے مرے زمزمۂ داد کے ساتھ
بس کہ ہے چشم مروت سے بھرا گریہ زار
پڑا پھرتا ہے مرے نالہ و فریاد کے ساتھ
یاد اس لطف حضوری کا کریں کیا حاصل
آ پڑا کام فقط اب تو تری یاد کے ساتھ
ظلم ہے حق میں ہمارے ترا اب ترک ستم
دل کو ہے انس سا اک اس تری بیداد کے ساتھ
زلف و کاکل سے قوی حسن کا بازو ہے مدام
قفس و دام رہے جیسے کہ صیاد کے ساتھ
خون ناحق رہا پرویز کی گردن پہ ولے
لطف شیریں نے ستم یہ کیا فرہاد کے ساتھ
راستی سے بھلا اتنا بھی گزرنا کیا ہے
نسبت اس قد کو نہ دو سرو کے شمشاد کے ساتھ
دست و پا کر کے میں گم نکلا دبے پاؤں کیا
ملا وہ طفل مجھے رات جو استاد کے ساتھ
حسرتؔ اتنا جو تو مائل ہے گرفتاری کا
کچھ عداوت ہے تجھے خاطر آزاد کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.