آسماں آسماں پاؤں دھرتے گئے دن گزرتے گئے
آسماں آسماں پاؤں دھرتے گئے دن گزرتے گئے
ہم ستاروں کو بجرے میں بھرتے گئے دن گزرتے گئے
راہ پرخار کے آبلہ پا مسافر تھے اک دھیان میں
ریگ امروز پر پھول دھرتے گئے دن گزرتے گئے
وقت کی شاخ پر زرد موسم کھلا اور ہوا چل پڑی
دور تک خشک پتے بکھرتے گئے دن گزرتے گئے
ایک چڑیا کتھا کوئی کہتی رہی ناؤ بہتی رہی
اور مانجھی سے ہم بات کرتے گئے دن گزرتے گئے
کتنی دنیاؤں سے کتنی دنیاؤں تک گرد کے باوجود
نقش سے آئنے میں ٹھہرتے گئے دن گزرتے گئے
بچھ گئی ایک شب چار سو اک بساط ہوا اور ہم
اپنی ہر سانس پر سانس ہرتے گئے دن گزرتے گئے
جس قدر خواب تھے مٹ ملے پانیوں میں بہے اور پھر
دل ترائی میں اطہرؔ اترتے گئے دن گزرتے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.