اگرچہ شام سے مفلس کی کٹیا میں اندھیرا ہے
اگرچہ شام سے مفلس کی کٹیا میں اندھیرا ہے
تصور میں مگر اس کے کوئی روشن سویرا ہے
نچاتا ہے زمانے کو ہمیشہ بین پر اپنی
بھری دنیا میں شاید وقت ہی ایسا سپیرا ہے
کہیں سے لوٹتا ہے اور کہیں پر بانٹ دیتا ہے
سمجھ پایا نہیں کوئی کہ وہ کیسا لٹیرا ہے
بہت جلدی تھی ماں تجھ کو یہ دنیا چھوڑ جانے کی
بتا کیسا جہاں ہے اب جہاں تیرا بسیرا ہے
بھلے کرتا رہے پامال عزت وہ غریبوں کی
اسے ہر بات جائز ہے وہ گاؤں کا وڈیرہ ہے
لکھا تھا جو نصیبوں میں اسے تو ہو کے رہنا تھا
ہوا جو کچھ بھی اس میں ہاتھ تیرا ہے نہ میرا ہے
کروں گی گو محبت سے چمن کی آبیاری میں
ہوا سے ٹوٹ سکتا ہے جو اک پودا چھریرا ہے
چلو ہم بھی وہیں چلتے ہیں فصل گل کی آمد ہے
سنا ہے آج کل اس شہر میں خوشبو کا ڈیرا ہے
مجھے اب خوف کیسا چلچلاتی دھوپ سے عذراؔ
تری پلکوں کا چہرے پر مرے سایا گھنیرا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.