عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے
عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے
خدا کی طلب شرک کی جستجو ہے
شراب محبت میں مخمور ہوں میں
پیالہ بھرا ہے ملبب سبو ہے
پتہ ایک کا دو میں کیوں کر ملے گا
جو کثرت فنا ہو تو خود تو ہی تو ہے
نہیں غیر کوئی تشخص کا پردہ
من و تو فقط غیر کی گفتگو ہے
ہے خود آپ موجود ہر یک صفت سے
جدائی نہیں اس میں کچھ مو بہ مو ہے
صفت بسط و قابض کی تخم و شجر ہے
جو بو ہے سو گل ہے جو گل ہے سو بو ہے
وہ پیر طریقت ہے کامل اسی کو
خدا اس کے ہر آن میں روبرو ہے
وجود ایک ہے صورت اس کی مغیر
ہے جلوہ اسی کا نہ میں اور تو ہے
تو مرکزؔ ہے عالم میں پیدا و ظاہر
بنایا بناتا ہے جو کچھ کہ تو ہے
مأخذ:
Dewan-e-Markaz (Pg. B-70 E-69)
- مصنف: یاسین علی خاں مرکز
-
- اشاعت: 1926
- ناشر: چشتیہ پریس چھتہ بازار
- سن اشاعت: 1926
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.