اجنبی بن کے ہیں لوگ آئے ہوئے
بزم میں دوست بھی سب پرائے ہوئے
بات سے بات بڑھتی گئی یاد کی
ہم اسی یاد کے ہیں ستائے ہوئے
بولتے ہیں زباں جو کسی اور کی
وہ کہاں ہیں ہمارے سکھائے ہوئے
اس نظر کی ادا ہے کہ اس نے مجھے
دیکھ کر بھی نظر ہیں جھکائے ہوئے
وہ پہیلی نہیں جو سلجھ نہ سکے
کوئی غم ہے اسے خود چھپائے ہوئے
باز اتا نہیں اپنی فطرت سے وہ
آج پھر ہے توجہ ہٹائے ہوئے
ہار کے راستوں سے گزر کے ملا
قافلہ جیت کا سر اٹھائے ہوئے
تو مرے شہر آ جا کبھی شام کو
ہم نظر راہ میں ہیں بچھائے ہوئے
جو چلا جا رہا اپنی دھن میں مگن
پھر بھی نکہتؔ اسے ہے منائے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.