اندھی رات کے چہرے پر تاریکی کا غازہ تھا
اندھی رات کے چہرے پر تاریکی کا غازہ تھا
دھیان کی اٹھتی موجوں میں جذبوں کا آوازہ تھا
یوں تو زخم اور مرہم میں اک فطری سمجھوتا ہے
لیکن مرہم کیا کرتا زخم محبت تازہ تھا
باسی پھول کی خوشبو نے سارے عقدے کھول دئے
اس کے ہاتھ کی مہندی سے پہلے صرف اندازہ تھا
ہم کو مقدر چھوڑ گیا اور کسی در پر ورنہ
جس پر دستک دینی تھی وہ اس کا دروازہ تھا
اک مستحکم رشتہ ہے بستی کا ویرانے سے
گھر میں موتی بکھرے تھے جنگل میں شیرازہ تھا
بستی کی پگڈنڈی سے گزرے تھے کچھ لوگ ابھی
طالبؔ ہم کو کیا معلوم ڈولی تھی کی جنازہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.