Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں

منیر  شکوہ آبادی

اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں

منیر  شکوہ آبادی

MORE BYمنیر  شکوہ آبادی

    اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں

    اس کا شیدائی ہوں جس کا کوئی شیدائی نہیں

    صاف ہیں ہم گو تجھے میل خود آرائی نہیں

    دل وہی آئینہ ہے پر تو تماشائی نہیں

    قائل وحدت ہوں شرکت کا تمنائی نہیں

    تو جو تنہا ہے تو مجھ کو فکر تنہائی نہیں

    ناصحو کیوں صبر کرنے کے لئے کرتے ہو تنگ

    اس قدر دل تنگ ہے جائے شکیبائی نہیں

    ڈھونڈھنے پر میں کمر باندھوں تو پاؤں قصر یار

    بے محل ہے لا مکاں کہنا وہ ہرجائی نہیں

    سچ ہے حق نا حق نہیں ملتا کسی کو مرتبہ

    دار پر منصور کو اوج مسیحائی نہیں

    یا کرو اپنا کسی کو یا کسی کے ہو رہو

    چار دن کی زندگی میں لطف تنہائی نہیں

    زار ہوں طاقت سے مل جانے کو طاقت چاہئے

    ناتوانی سے جدائی کی توانائی نہیں

    دشت وحشت میں نہیں ملتا ہے سایہ کا پتا

    میں ہوں سودائی مرا ہم زاد سودائی نہیں

    آتشی شیشہ کی عینک ہو ہماری آنکھ میں

    ہم تمہاری گرمیاں دیکھیں یہ بینائی نہیں

    مصر کے بازار میں کیا بڑھ گئی یوسف کی قدر

    حسن کو بے پردگی میں عیب رسوائی نہیں

    بے مے و مے خانہ و ساقی جو آئی مجھ کو موت

    حلقۂ ماتم ہے دور چرخ مینائی نہیں

    ہو گیا خاموش جو شہر خموشاں کا ہوا

    ہے دہان گور موجود اور گویائی نہیں

    دونوں نشاؤں سے ہیں باہر مست صہبائے الست

    اپنے مے خانہ میں دور چرخ مینائی نہیں

    پائیں کیا دیوانۂ مژگاں بت ترسا میں لطف

    سوزن‌ عیسیٰ میں نوک خاک صحرائی نہیں

    میرے دل کی تجھ کو بے جا ہے شکایت غیر سے

    اپنے گھر کا حال کہنا طرز دانائی نہیں

    نشہ میں زندہ ہیں ہے عیسیٰ نفس اپنا خمار

    جان اعضا میں چلی آتی ہے انگڑائی نہیں

    ہو گئے ٹیڑھے اگر ہم نے جگایا نیند سے

    آپ در پردہ اکڑتے ہیں یہ انگڑائی نہیں

    مے کدہ پر سقف ابر رحمت حق چاہئے

    احتیاج سائبان چرخ مینائی نہیں

    بے خطر ہیں سستیٔ اندام سے نازک مزاج

    جستجوئے‌ بادہ میں شیشوں کی انگڑائی نہیں

    سر کو ٹکرا کر مٹایا اپنی قسمت کا لکھا

    دیر میں کعبہ میں اب فکر‌ جبیں سائی نہیں

    آپ سے یوسف ہزاروں ہم سے عاشق سیکڑوں

    حسن کا توڑا نہیں قحط تماشائی نہیں

    پیر گردوں سے ذرا انجم اچک کر چھین لیں

    ہمتیں عالی ہیں فکر چرخ بالائی نہیں

    ہے مرا دشت جنوں سات آسمانوں سے دو چند

    ربع مسکوں وادئ وحشت کی چوتھائی نہیں

    دختر رز مثل افلاطوں ہے جب تک خم میں ہے

    نشہ میں اپنے سے باہر ہوں یہ دانائی نہیں

    لکھنؤ کی آرزو میں جان دیتا ہے منیرؔ

    سلطنت کا بھی زمانہ میں تمنائی نہیں

    مأخذ:

    Muntakhabul-Alam (Pg. 148)

    • مصنف: منیر  شکوہ آبادی
      • اشاعت: 1831
      • ناشر: مطبع سعیدی
      • سن اشاعت: 1848

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے