ازل سے جو مسلسل ہے رواں وہ کارواں ہم ہیں
ازل سے جو مسلسل ہے رواں وہ کارواں ہم ہیں
جو بدلے دم بہ دم تاہم ہے قائم وہ جہاں ہم ہیں
سمٹنے پر اگر آئیں تو اک تن میں سمٹ جائیں
لگیں جب پھیلنے تو وسعت کون و مکاں ہم ہیں
گلہ کیا جو نکالا آدم و حوا کو جنت سے
اسی کے آج صدقے ناظم باغ جہاں ہم ہیں
ہوئے کب آشنا ہم اپنی ہستی کی حقیقت سے
ہمارا راز ہے ایسا کہ ہم سے بھی نہاں ہم ہیں
جنہیں ہم بلبلا پانی کا دکھتے ہیں کہو ان سے
نظر ہو دیکھنے والی تو بحر بے کراں ہم ہیں
یہ سورج چاند تارے سب چلیں راہ معین پر
چنیں ہم راہ خود اپنی خود اپنے راہ داں ہم ہیں
یہاں ہر آدمی مصروف ہے اپنی مسافت میں
رکے پل بھر کوئی تو پوچھ لیں اس سے کہاں ہم ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.