بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے
بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے
سفر میں راہ و منزل کا تعین بھی یہیں تک ہے
نہ ہو انکار تو اثبات کا پہلو بھی کیوں نکلے
مرے اصرار میں طاقت فقط تیری نہیں تک ہے
ادھر وہ بات خوشبو کی طرح اڑتی تھی گلیوں میں
ادھر میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ہم نشیں تک ہے
نہیں کوتاہ دستی کا گلہ اتنا غنیمت ہے
پہنچ ہاتھوں کی اپنے اپنے جیب و آستیں تک ہے
سیاہی دل کی پھوٹے گی تو پھر نس نس سے پھوٹے گی
غلامو یہ نہ سمجھو داغ رسوائی جبیں تک ہے
پھر آگے مرحلے طے ہو رہیں گے ہمت دل سے
جہاں تک روشنی ہے خوف تاریکی وہیں تک ہے
الٰہی بارش ابر کرم ہو فصل دونی ہو
کہ باقرؔ کی تو آمد بس اسی دل کی زمیں تک ہے
مأخذ:
Kulliyat-e-Baqir (Pg. 181)
- مصنف: Sajjad Baqir Rizvi
-
- اشاعت: 2010
- ناشر: Sayyed Mohammad Ali Anjum Rizvi
- سن اشاعت: 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.