Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

دتا تریہ کیفی

باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

دتا تریہ کیفی

MORE BYدتا تریہ کیفی

    باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    ورنہ مجھے سودا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    الزام یہ جھوٹا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    کیا وہ مری سنتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    جھوٹا ترا کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    دعویٰ مرا سچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    تو دیکھ رہا ہے جو مرا حال ہے قاصد

    مجھ کو یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    کہنا جو نہ تھا کہہ گیا دیکھو تو ڈھٹائی

    اور پھر کہے جاتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    وہ ضد پہ تلے بیٹھے ہیں کیا بحث سے حاصل

    موقع ہی یہ ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    تھی سمع خراشی کی شکایت کبھی ان کو

    اب سنتا ہوں شکوا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    بد گوئی سی بد گوئی ہے بہتان سا بہتان

    اور اس پہ وہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    میں کچھ کہوں تو ہاتھ وہ کانوں پہ ہیں دھرتے

    اور الٹا یہ چھیڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    آتا ہے جو منہ پر وہ کہے جاتے ہیں بے روک

    اور اس پہ یہ فقرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    میں دیکھ چکا ہوں انہیں کہہ کہہ کے مگر کیا

    اس کا ہی نتیجہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    میں کس سے کہوں کیا کہوں سنتا ہے وہاں کون

    اس کا ہی یہ منشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    یہ ترک محبت نہیں ان سے مگر اے دوست

    رنج ایسا ہی پہنچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    قینچی سی چلی چلتی ہے دیکھو تو زباں اور

    اس پر بھی یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    راز ان کے کھلے جاتے ہیں ایک ایک سبھوں پر

    اور اس پہ تماشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    سچ بات کے سننے کی انہیں تاب کہاں ہے

    اس سے یہی اچھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    باتیں ہیں کہ چھریاں سی چبھی جاتی ہیں دل میں

    میرا ہی کلیجہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    میں کہنے پہ آؤں تو رلا کر انہیں چھوڑوں

    مت پوچھ سبب کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    چپ چاپ سنی ان سنی کر دیتا ہوں ہر بات

    غیروں میں بھی چرچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    نازک ہے مزاج ان کا یہاں سچ کی ہے عادت

    اس سمجھے سبب کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    بگڑا ہے مزاج اور کہیں تیز نہ ہو جائیں

    مجھ کو یہی سانسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    کیوں اپنی زباں سے کہوں پوچھو تم انہیں سے

    راز اس میں نہیں یا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    جو رنج عزیزوں نے دئے کیا کہوں کیفیؔ

    غیرت کا تقاضا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

    مأخذ:

    Waridat (Pg. 447)

    • مصنف: دتا تریہ کیفی
      • اشاعت: 1941
      • ناشر: میسرز رام لال سوری اینڈ سنز، انارکلی، لاہور
      • سن اشاعت: 1941

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے