بدن کو اپنی بساط تک تو پسارنا تھا
دلچسپ معلومات
شمارہ 77 اکتوبر 1977
بدن کو اپنی بساط تک تو پسارنا تھا
ہر ایک شے کو لہو کے رستے گزارنا تھا
جدھر فصیلوں نے اس کو موڑا یہ مڑ گئی ہے
ہوا کی موجوں میں کوئی کوندا اتارنا تھا
تو کیا سبب سات پانیوں کو نہ پی سکے ہم
خود اپنا ڈوبا ہوا جزیرہ ابھارنا تھا
میں اپنے اندر سمٹ گیا ایک لمحہ بن کر
کہیں تو اپنے جنم کا منظر گزارنا تھا
تم آ گئے کیوں وجود کی یہ برات لے کر
ہمیں تو اپنی رگوں میں شمشان اتارنا تھا
یہاں سے کٹ کر وہ جا کے جنگل میں سو گئی ہیں
اسی بہانے ہواؤں کو کھیل ہارنا تھا
نہ برج ٹوٹے نہ آنکھ جھپکی نہ وقت بیتا
نہ جانے کیا کچھ بسرنا تھا کیا بسارنا تھا
- کتاب : Shabkhoon (Urdu Monthly) (Pg. 951)
- Author : Shamsur Rahman Faruqi
- مطبع : Shabkhoon Po. Box No.13, 313 rani Mandi Allahabad (June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II)
- اشاعت : June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.