بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے
بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے
زمیں کیا آسماں تک ہے مکاں کیا لا مکاں تک ہے
تعین سے بری ہو گر ہے لا محدود کا طالب
کہ حد ملک و دنیا تو وہیں تک ہے جہاں تک ہے
نہ ہو آزاد دور چرخ کی حلقہ بگوشی سے
ترا مرکوز دل ماؤ شما اور این و آں تک ہے
تو بسم اللہ کے گنبد میں کیا ہے معتکف زاہد
سکون خاطر مضطر حواسوں سے اماں تک ہے
پہنچ سکتا ہے کب سچی خوشی کو عیش نفسانی
کہ وہ تو آب رکنا باد و جوئے مولیاں تک ہے
ہے شیخ و برہمن کے دین کی حد دیر و کعبہ تک
سواد دین عشق بے غرض کون و مکاں تک ہے
یقیں سے اور عمل سے پختگی پائی عقیدت نے
پہنچ تیری تو اے نادان بس وہم و گماں تک ہے
حقیقت حسن کی آئینہ تجھ پر کیونکہ ہو جاتی
نظر تیری تو زلف و خال و ابروئے بتاں تک ہے
جو ہیں مست الست ان کو خمار و سکر کا ڈر کیا
نگاہ تشنہ کام عشق ہی دست مغاں تک ہے
حصیر عشق کو کب دخل اس محفل میں ہے کیفیؔ
بساط اس کی فقط بین و بکا آہ و فغاں تک ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.