بٹھا رکھا ہے دروازے پہ کیوں دربان ہولی میں
گلے ملتا ہے ہر انسان سے انسان ہولی میں
بڑھاپے میں نظر آئی خدا کی شان ہولی میں
بنی ہیں ان سے زائد ان کی اماں جان ہولی میں
حسینوں سے بھرا ہے رنگ کا میدان ہولی میں
مری رکھنا تو ہی اب آبرو بھگوان ہولی میں
کسی رخ سے کوئی عاشق نکل کر جا نہیں سکتا
حسینوں نے لگا رکھا ہے چوہے دان ہولی میں
ابھی رنگین خالی تن ہے من بھی لال ہو جائے
تم اپنے ہاتھ سے ہم کو کھلا دو پان ہولی میں
بنام رنگ چھو سکتے ہیں سب کے گورے گالوں کو
وہی مشکل جو کل تک تھی وہ ہے آسان ہولی میں
سسر سے ساس سے اور سالیوں کے بعد سالوں سے
گلے مل کر نکالے جائیں گے ارمان ہولی میں
جوانی میں ہوئی شادی بڑھاپے میں ہوا بچہ
جوا کھیلا دیوالی میں ہوا چالان ہولی میں
سب اس صورت سے کھیلیں رنگ ناوکؔ ایک دل ہو کر
رہے پھر مرد عورت کی نہ کچھ پہچان ہولی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.