بجھتا چلا ہے شعلہ دل داغدار کا
اب کوئی دم میں کوچ ہے شمع مزار کا
ہے ایک طرح شعلہ دل داغدار کا
بجھتا نہیں چراغ ہماری مزار کا
دل کی شکستگی پس مردن بھی ہے عیاں
شق سو جگہ سے سنگ ہے میری مزار کا
نام آوروں کو ایسا فلک نے مٹا دیا
ملتا نہیں نشاں بھی اب ان کی مزار کا
دود جگر کو جب نہ ملی جا جہان میں
پروانہ بن گیا مری شمع مزار کا
کھینچوں اگر میں قبر میں اک آہ آتشیں
سرمہ بسان طور ہو پتھر مزار کا
مٹنے سے اس کے نام و نشاں خلق سے مٹے
رکھا ہے نام لوح طلسم مزار کا
ساتوں فلک ہیں ظلم کو کیا کم کہ بعد مرگ
اک اور آسمان ہو گنبد مزار کا
ہم مر گئے ہیں عشق میں اک سبز رنگ کے
گنبد زمردی ہو ہماری مزار کا
مد نظر یہ ہے کہ مٹائیں نشاں تلک
سرمہ بنا رہے ہیں وہ سنگ مزار کا
پڑھنے لگے وہ فاتحہ میری سمجھ کے قبر
پایا کہیں نشاں جو کسی کے مزار کا
کہہ دو یہ دوستوں سے بنائیں نہ کچھ نشاں
بس ہے یہی نشان ہماری مزار کا
روئے گا یہ بھی شمع کی صورت تمام عمر
ہنسنا نہیں ہے خوب چراغ مزار کا
دم بھر کو شامیانہ لحد پر وہ ہو گیا
اٹھا بگولا کوئی جو خاک مزار کا
کی جستجو کہاں نہ کہاں دوستوں نے پر
پایا کہیں نشاں نہ ہماری مزار کا
اللہ رے اپنے طالع خوابیدہ کا اثر
سبزہ بھی سو رہا ہے ہماری مزار کا
کیسے یہ جھونکے باد مخالف کے چل گئے
گل کر دیا چراغ ہماری مزار کا
کی سوز دل سے مر کے جو اک آہ آتشیں
مثل چنار جل گیا تختہ مزار کا
وہ بے وفا بھی رونے لگا آ کے قبر پر
تعویذ با اثر ہے ہماری مزار کا
اٹھ اٹھ کے بیٹھ بیٹھ گیا ناتواں کی طرح
اٹھا کبھی غبار جو خاک مزار کا
سوز دروں سے سنگ لحد تک چٹک گیا
سبزہ ہرا ہو خاک ہماری مزار کا
اللہ کیا ہے تیرہ و تاریک میری قبر
ظلمت ہے نام کاکل شمع مزار کا
روتے ہیں ہر لحد سے لپٹ کر وہ زار زار
ملتا نہیں نشاں جو ہماری مزار کا
جل جائیں گے غریب پتنگے ادھر ادھر
روشن کرو چراغ نہ میری مزار کا
اب پوچھتے ہیں آپ کہ فاخرؔ گزر گیا
باقی نشاں تلک نہ رہا جب مزار کا
مأخذ:
کارنامۂ نظم (Pg. 57)
-
مصنف:
فاخر لکھنوی
-
- ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.