بقعۂ نور ہر اک راہ گزر ہو جائے
بقعۂ نور ہر اک راہ گزر ہو جائے
وہ مری رات سے گزرے تو سحر ہو جائے
حسن تاباں کی تجلی کا وہ عالم ہو کہ بس
اک جھلک دیکھ کے تسکین نظر ہو جائے
کوئی تو جلوہ کناں ہو مہ و انجم کی طرح
دیدۂ شوق کی جو راہ گزر ہو جائے
عارض حسن پہ راتوں کا بسیرا ہے تو کیا
رخ سے جھٹکا دے جو زلفوں کو سحر ہو جائے
ہم کہ موسیٰ نہیں کوئی جو تقاضا کرتے
حسن خود چاہے تو محفوظ نظر ہو جائے
ہم وفا کر کے بھی بدنام بہت ہیں یارو
وہ جفا بھی جو کریں ہیں تو ہنر ہو جائے
تم کریدا نہ کرو دل کی دبی راکھوں کو
شعلہ شعلہ نہ کہیں خاک شرر ہو جائے
سامنے اس کے سمندر کی حقیقت کیا ہے
ایک قطرہ جو گنہ گار گہر ہو جائے
نوع آدم میں کوئی تخم سحرؔ ہے کہ نہیں
خاک کے پردے سے نکلے تو بشر ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.