چھت کاٹ رہی ہے کبھی در کاٹ رہا ہے
چھت کاٹ رہی ہے کبھی در کاٹ رہا ہے
خالی ہے مکینوں سے تو گھر کاٹ رہا ہے
تلووں میں چبھے جاتے ہیں احساس کے کانٹے
تم ساتھ نہیں ہو تو سفر کاٹ رہا ہے
الفاظ کی تاثیر کہ جادو ہے زباں کا
لہجے سے وہ پتھر کا جگر کاٹ رہا ہے
دوکان سجائی ہے کہاں شیشہ گروں نے
ہر شخص جہاں دست ہنر کاٹ رہا ہے
دامن ہوا جاتا ہے سمندر کا کشادہ
ہر آن کناروں کو بھنور کاٹ رہا ہے
رشتوں کا تقدس ہے نہ کچھ پاس لہو کا
اک بھائی یہاں بھائی کا سر کاٹ رہا ہے
گرتی ہوئی دیوار کا لمحہ ہے نظر میں
سہمے ہوئے بچوں کو وہ ڈر کاٹ رہا ہے
ہے شغل بھی زندانیٔ دنیا کا قمرؔ خوب
کٹتی نہیں زنجیر مگر کاٹ رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.