دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے
دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے
دل کو جو کوئی تیرا گھر سمجھے
اشک خونیں بہے تو ہم دل کو
ہدف ناوک نظر سمجھے
نالۂ غیر آتش افشاں ہے
شب وصلت کی تم سحر سمجھے
نہ اٹھا اپنے آستاں سے ہمیں
ہم تو بیٹھے ہیں اپنا گھر سمجھے
نامہ دے کر نظارہ ہے منظور
ہم تقاضائے نامہ بر سمجھے
غیر سے پوچھتے ہیں کوچۂ یار
ایسے رہزن کو راہبر سمجھے
وہ ستم کرنے آئے ہیں ایجاد
اور ہم آہ کا اثر سمجھے
صرف کرنا ہے عنصر آبی
ہم ترا گریہ چشم تر سمجھے
اس سے کیا مدعا کہوں سالکؔ
صلح کی بات کو جو شر سمجھے
مأخذ:
Kulliyat-e-Saalik (Pg. e-432 p-400)
- مصنف: قربان علی سالک بیگ
-
- اشاعت: 1966
- ناشر: سید امتیاز علی تاج, مجلس ترقی ادب، لاہور
- سن اشاعت: 1966
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.