دم بھر جو نہ دیکھے تجھے اے رشک پری آنکھ
مژگاں کی زبانوں سے کرے نوحہ گری آنکھ
جم جائے تصور جو ترے بوٹے سے قد کا
پتھرا کے بنے صاف عقیق شجری آنکھ
لے لیجئے شیشے ہیں سفید اشک نہیں ہیں
نم بادہ کشی سے کہ گئی شیشہ گری آنکھ
جاؤ جو چمن کو تو کرے فرش رہ ناز
بلبل جگر و فاختہ دل کبک دری آنکھ
دیکھا جسے بسمل کیا تاکا جسے مارا
اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈری آنکھ
جنبش ادھر اس کو ہے تو گردش ادھر اس کو
ابرو ہے کہ شمشیر سپر ہے کہ پھری آنکھ
کیا دید کے قابل ترے کوچے کی زمیں ہے
ہر گام ہے نقش قدم رہ گزری آنکھ
تم جھانک رہے ہو یہ تمہیں تاک رہا ہے
کیوں دیدۂ روزن پہ اجی تم نے دھری آنکھ
کہتی ہی تری ناف و شکم دیکھ کے بلبل
رخسار گل تر پہ ہے نرگس کی دھری آنکھ
اے ماہ یہ سب چشم فلک کے ہیں اشارے
ایسے تو نہ تھی مائل بیداد گری آنکھ
نرگس جو گلستاں میں ہے تو دشت میں آہو
ہر رنگ میں دکھلانے لگی جلوہ گری آنکھ
گد کا کہیں وہ سرمہ کا دنبالہ اٹھائے
ہے دست مژہ میں لیے پتلی کی پھری آنکھ
دیکھے وہ اگر چشم سیہ اور یہ خط سبز
نرگس کی سیہ آنکھ ہو طوطی کی ہری آنکھ
مأخذ:
Daftar-e-Fasahat (Pg. ebook-177 page-161)
-
مصنف:
خواجہ محمد وزیر
-
- اشاعت: 1847
- ناشر: مطبع مصطفائی، لکھنو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.