دروغ گوئی کی فطرت کو آگ لگ جائے
دروغ گوئی کی فطرت کو آگ لگ جائے
تمہاری دوغلی صورت کو آگ لگ جائے
نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو مار ڈالا ہے
خدا کرے کہ محبت کو آگ لگ جائے
فقیر شہر کو فاقہ کشی نے مار دیا
امیر شہر کی دولت کو آگ لگ جائے
کہیں ملے جو وفا تو خرید کر رکھ لو
نہ جانے کب یہاں قیمت کو آگ لگ جائے
مآل خفتگی دیکھو یہ قوم چیخ رہی
ذہین فکر کی غفلت کو آگ لگ جائے
حقیر سمجھے سبھی کو ذلیل کرتا پھرے
انا پرست کی شہرت کو آگ لگ جائے
بدل سکے نہ عداوت کو جو اخوت سے
تو ایسے لوگوں کی صحبت کو آگ لگ جائے
چھپا ہو مقصد شہرت اگر بھلائی میں
تو ایسی عزت و شہرت کو آگ لگ جائے
فراق جاناں سے اسعدؔ کا دل ہوا چھلنی
دعائے دل ہے کہ ہجرت کو آگ لگ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.