aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں

دتا تریہ کیفی

پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں

دتا تریہ کیفی

MORE BYدتا تریہ کیفی

    پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں

    حسن خوب کھل کھیلا اس صفت کے منظر میں

    حسن عشق میں ہے یا عشق حسن میں مضمر

    جوہر آئنے میں یا آئینہ ہے جوہر میں

    عشق محشر آرا کی طور پر گری بجلی

    حسن لن ترانی کہ رہ سکا نہ چادر میں

    دیکھ اے تماشائی گل ہے رنگ و بو بالکل

    امتیاز نا ممکن ہے عرض سے جوہر میں

    گل میں اور بلبل میں کون جانے کیا گزری

    چشم پوش مستی تھی اس برہنہ منظر میں

    اپچی بناتے ہیں حسن کو سخن گو کیوں

    کاٹ ان اداؤں کا کب ہے تیغ و خنجر میں

    فرط سوز الفت میں دیکھ کر سکوں دل کا

    بجلیاں مچلتی ہیں بادلوں کے محشر میں

    چارہ گر کو حیرت ہے ارتقائے وحشت سے

    پاؤں میں جو چکر تھا آ رہا ہے وہ سر میں

    حسرت آرمان کی ہو کہنا سے گنجائش

    ہے وہی مرے دل میں ہے وہی مرے سر میں

    ہوں وہ رند یا صوفی مست اس کی دھن میں ہیں

    جانے کتنے مے خانے بھر دیے ہیں کوثر میں

    چرخ کیا اتر آیا آج فرش گیتی پر

    رند بھی ہیں چکر میں مے کدہ بھی چکر میں

    مے وہ ہوش پر افگن اور نظر وہ صہبا پاش

    مست کیوں نہ ہو کیفیؔ ایک دو ہی ساغر میں

    مأخذ:

    Waridat (Pg. 455)

    • مصنف: دتا تریہ کیفی
      • اشاعت: 1941
      • ناشر: میسرز رام لال سوری اینڈ سنز، انارکلی، لاہور
      • سن اشاعت: 1941

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے