دھنک سے پھول سے برگ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
دھنک سے پھول سے برگ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
بدن صحرا ہوئے آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا
بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اس خنجر دست جفا سے کچھ نہیں ہوتا
اگر وسعت نہ دیجے وحشت جاں کے علاقے کو
تو پھر آزادیٔ زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا
کوئی کونپل نہیں اس ریت کی تہہ میں تو کیا نکلے
یہاں اے سادہ دل کالی گھٹا سے کچھ نہیں ہوتا
ازل سے کچھ خرابی ہے کمانوں کی سماعت میں
پرندو شوخیٔ صوت و صدا سے کچھ نہیں ہوتا
چلو اب آسماں سے اور کوئی رابطہ سوچیں
بہت دن ہو گئے حرف دعا سے کچھ نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.