دیدۂ کم صفات اندر سے
دیدۂ کم صفات اندر سے
تو نے دیکھی ہے رات اندر سے
خواہش نعرۂ ظفر یابی
مجھ کو ہونی ہے مات اندر سے
خیر مقدم نہ کر عروس چشم
لٹ چکی ہے برات اندر سے
اے فریب برون موسم زرد
سبز تھے سارے پات اندر سے
اپنے ٹھنڈے بدن کو چھوتا ہوں
جوں ہی جلتے ہیں ہات اندر سے
حسرت داد جستجو نہ رہی
ایسی بگڑی ہے بات اندر سے
ہائے وہ گھر کہ جس میں پیش آئے
دستکی حادثات اندر سے
شرر افشانئ بیاض غزل
کیا ہوئے کاغذات اندر سے
سرمئی خوشبوؤں کے نشہ ہے
رقص فرما ہے رات اندر سے
کوئی لطف عجب کہ ہے مسدود
جہت صد جہات اندر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.