دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے
دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے
ظرف مردہ ہو تو سچائی کہاں سے آئے
پیار تعمیر ہو جب بغض کی بنیادوں پر
ملتی نظروں میں شناسائی کہاں سے آئے
گم ہیں رنگوں میں خد و خال بھی تصویروں کے
پس پردہ کا تماشائی کہاں سے آئے
میری ہر سوچ کے رستے میں کھڑا ہے کوئی
آئینہ خانے میں تنہائی کہاں سے آئے
میری آواز خموشی نے مجھے لوٹا دی
مجھ میں اب جرأت گویائی کہاں سے آئے
کوئی بھی دیکھنا چاہے نہ کسی کو زندہ
خوں کے پیاسوں میں مسیحائی کہاں سے آئے
اس قدر شوق در آمد ہے مظفرؔ ہم کو
سوچتے رہتے ہیں رسوائی کہاں سے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.