دل کے ہر زخم کو ہونٹوں پہ سجایا جائے
دل کے ہر زخم کو ہونٹوں پہ سجایا جائے
کیا ضروری ہے کہ حال اپنا سنایا جائے
آنسوؤں میں تری صورت کو سجایا جائے
بہتے پانی پہ بھی اک نقش بنایا جائے
اب مجھے دیکھ کے کہتے ہیں یہ آئینہ مزاج
ایک شخص اور تھا شاید کہیں پایا جائے
کس کے بس میں ہے مری طرح صلیبوں کا سفر
اپنے ہر خواب کو سولی پہ چڑھایا جائے
آج کی رات ملاقات کا جادو نہ سہی
آج ان آنکھوں میں نیندوں کو جگایا جائے
دل کی آگ اور بڑھا دیتے ہیں بہتے آنسو
کیا کرے وہ جسے پانی سے جلایا جائے
جرم سا جرم ہے میرا کہ ہوں اک نقش وفا
دوستو مجھ کو ابھی اور مٹایا جائے
اس کے ہونٹوں پہ مرے شعر تعجب ہے مجھے
میرے افکار کو پھولوں میں بسایا جائے
بدرؔ اچھا ہے نمائش نہ ہو داغ دل کی
اپنے گھر میں ہی چراغ اپنا جلایا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.