دن ڈھل چکا ہے اور وہی نقشہ ہے دھوپ کا
دن ڈھل چکا ہے اور وہی نقشہ ہے دھوپ کا
یہ شغل خودنمائی بھی اچھا ہے دھوپ کا
پردے پہ آنکھ کے جو ستارہ تھا بجھ گیا
کردار اس کہانی میں کیا کیا ہے دھوپ کا
دو ایک بول ڈوبتے سورج کی ضو پہ بھی
یہ آخری ورق ابھی سادہ ہے دھوپ کا
اک لہر جاگ اٹھتی ہے اس دل میں صبح دم
جس پر سفینہ تیرتا رہتا ہے دھوپ کا
تصویر دن کی چھوڑ بھی سکتے ہیں ناتمام
پیمانہ ہم سے کھو بھی تو سکتا ہے دھوپ کا
یہ آنکھ دم بدم کسی لو کے اثر میں ہے
اس آئنے پہ بھی ہمیں دھوکہ ہے دھوپ کا
کچھ دوڑ دھوپ اور بھی دل کی زمین پر
اس رخ پہ موجزن ابھی دریا ہے دھوپ کا
- کتاب : شام کے بعد کچھ نہیں (Pg. 58)
- Author :شاہین عباس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.