دنیا میں کوئی وقت بھی یکساں کہاں رہا
دنیا میں کوئی وقت بھی یکساں کہاں رہا
رنجور کر گیا تو کبھی شادماں رہا
سورج کے چڑھنے ڈھلنے سے سائے بدل گئے
اپنی جگہ نہ دہر میں کوئی نشاں رہا
شہ زور کل تھا آج وہ کمزور ہو گیا
اور بے بسی میں مائل آہ و فغاں رہا
طاقت کہیں عطا ہے کہیں مستعار ہے
رستم جو تھا جہاں میں کبھی ناتواں رہا
ہو جائے سرد آتش نمرود آج بھی
لیکن خلیل سا یہاں ایماں کہاں رہا
باطل سے معرکہ رہا روز ازل ہی سے
ہر گام خیر و شر کا عجب امتحاں رہا
دو گز زمیں ہے بالیقیں تیرے نصیب میں
پہنچا ہو چاند پر یا سر آسماں رہا
دنیا نے کب کسی کا دیا ساتھ عمر بھر
انسان کب کسی پہ سدا مہرباں رہا
مرعوب اس کو باطل و ظلمت نہ کر سکے
ایماں سے قلب فیضؔ یہاں ضو فشاں رہا
مأخذ:
آئینہ در آئینہ (Pg. 77)
- مصنف: فخرالدین غوری فیض
-
- ناشر: قاسمی پرنٹرس، ممبئی
- سن اشاعت: 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.