ڈوب جانے کے سوا عشق میں چارا ہی نہیں
ڈوب جانے کے سوا عشق میں چارا ہی نہیں
اس سمندر کا کسی سمت کنارا ہی نہیں
تلخیٔ زخم جگر جس کو گوارا ہی نہیں
اس کو ناوک نگہ ناز نے مارا ہی نہیں
سنتے آتے ہیں کہ اک روز قیامت ہوگی
آپ نے زلف پریشاں کو سنوارا ہی نہیں
پردۂ دل سے صدا یار کی آ ہی جاتی
ہم تذبذب میں رہے اس کو پکارا ہی نہیں
باز ہم ایسے تصور سے کہ اب تک جس نے
ایک نقشہ بھی ترا ٹھیک اتارا ہی نہیں
پھر شکایت ہے مرے دل کے تڑپنے کی عبث
تاک کر تیر کوئی آپ نے مارا ہی نہیں
کیا ہے دریائے محبت کے ادھر کیا معلوم
تیری تلوار نے اس گھاٹ اتارا ہی نہیں
ان کی محفل کی عجب بات ہے کیا عرض کریں
تذکرہ سب کا ہے اک ذکر ہمارا ہی نہیں
مل گئی اس کی نظر میری نظر سے آخر
اب تو دینا ہی پڑا دل کوئی چارا ہی نہیں
اور بھی دیدۂ دل رکھتے ہیں پرخوں ہم سے
کچھ ترے ہجر میں یہ رنگ ہمارا ہی نہیں
پارسائی میں ہے فرد اس کی حیا اے بیتابؔ
شوق آلود نظر اس کو گوارا ہی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.