دور اس سرحد دل پر بھی اترنا ہو گا
دور اس سرحد دل پر بھی اترنا ہو گا
دشت جیسا بھی سہی پار تو کرنا ہو گا
عشق کافی نہیں اندر کی سدا سننے کو
یہ خلا اور کسی طور سے بھرنا ہو گا
جادۂ دل سے وہ سب لوگ تو ہو گزرے ہیں
اس گزر گاہ کو اب خود بھی گزرنا ہو گا
زینۂ خواب سے اتروں گا میں لمحہ لمحہ
اور زینے کو مرے ساتھ اترنا ہو گا
اپنی یہ وضع نہیں تھی مگر اے زخم ہنر
کیا خبر تھی ترا انکار بھی کرنا ہو گا
وقت گزرے چلا جاتا ہے بس اپنی دھن میں
اک صدا آئے گی اور اس کو ٹھہرنا ہو گا
دل کی جانب چلا آتا ہے جو دریائے فراق
ہو نہ ہو آج اسے یاں سے گزرنا ہو گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.