رات کے خوابوں کا اک طرفہ سماں ہوتا ہے
صبح کے گونجتے آوازے سے چونک اٹھتا ہوں
سانس لیتا ہوں بہر کیف گماں ہوتا ہے
انگلیاں پھیرتا ہوں اپنے بدن پر اب تو
کارواں ہوش کا یادوں کا رواں ہوتا ہے
یہ نیا دن ہے مگر وقت کہاں ٹھہرا ہے
سامنے کھونٹی سے لٹکا ہے مرا گرم لباس
جس پہ خود ساختہ پابندیوں کا پہرا ہے
جن کے سائے میں ابھی مجھ کو رواں ہونا ہے
میری تہذیب کا ہر زخم بہت گہرا ہے
اور بھی جاگنے والے ہیں خیال آتے ہیں
سوچتا ہوں مری صورت کہیں وہ بھی اٹھ کر
درد سہتے ہیں کبھی درد کو سہلاتے ہیں
جانے کس جرم کی پاداش میں یوں گھلتا ہوں
لوگ تو ورنہ اسی بات پہ اتراتے ہیں
دور بے دھیانی میں گھڑیال صدا دیتا ہے
ذہن دل جسم ہر اک چیز چمک اٹھتی ہے
مار کر کوڑے کوئی جیسے اٹھا دیتا ہے
ڈر کے سب بھاگتے ہیں کھیتوں کو میدانوں کو
وقت بھٹکے ہوؤں کو رہ پہ لگا دیتا ہے
لہلہاتے ہوئے گندم کے سجیلے پودو
مسکراتے ہوئے کھیتوں کے محافظ پیڑو
جھومتی ٹہنیوں کو وجد میں لاتے پتو
مجھ کو قدرت دو کہ میں تم کو سراہوں چاہوں
شہر کے سحر کو توڑوں تمہیں پالوں دیکھوں
- کتاب : sheerazah (Pg. 72)
- Author : makhmoor saeedi,Parem Gopal Mittal
- مطبع : P -K Publication 3072 Partap stareet gola Market -Daryaganj delhi-6 (1973)
- اشاعت : 1973
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.