فطرت ایسی ہی کچھ انسان میں رکھ دی گئی ہے
فطرت ایسی ہی کچھ انسان میں رکھ دی گئی ہے
ایک الجھن سی ہر اک آن میں رکھ دی گئی ہے
وہ فرشتہ ہی ہے جو ہاں کے سوا کچھ نہ کہے
جرأت انکار کی شیطان میں رکھ دی گئی ہے
جھوٹ پیراہن صد رنگ بدل سکتا ہے
حق بیانی مگر امکان میں رکھ دی گئی ہے
میری ہمت ہے کہ میں نظریں اٹھاؤں اوپر
خود مری آنکھ گریبان میں رکھ دی گئی ہے
پھول کاغذ کے سجائے تھے سلیقہ سے جہاں
میری خوشبو اسی گلدان میں رکھ دی گئی ہے
پھر کوئی پیار ہے دولت کے ترازو میں تلا
دل کی اک ٹوکری میزان میں رکھ دی گئی ہے
مہر کی کرنوں سے روشن تو ہیں پلکیں لیکن
تیرگی دیدۂ حیران میں رکھ دی گئی ہے
زندگی خرچ کیا میں نے تجھے جی بھر کے
جو بچی تھی کہیں دیوان میں رکھ دی گئی ہے
ہیں کلا کار کے ہاتھوں میں فقط کچھ سکے
اور ستائش کہیں سامان میں رکھ دی گئی ہے
جس میں کاٹی تھیں کبھی سرد اکیلی راتیں
میری میت اسی دالان میں رکھ دی گئی ہے
بندے کی رب سے ملاقات کا ہی نام ہے عشق
سب کہانی اسی عنوان میں رکھ دی گئی ہے
اے شہنشاہ تمناؔ تو تجھے مل نہ سکی
اس کی مورت ترے ایوان میں رکھ دی گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.