غم دنیا نہیں پھر کون سا غم ہے ہم کو
غم دنیا نہیں پھر کون سا غم ہے ہم کو
فکر و اندیشۂ عقبیٰ سے بھی رم ہے ہم کو
دہن غنچہ سے پیغام وفا سنتے ہیں
غازۂ عارض صد ہست عدم ہے ہم کو
قول یہ سچ ہے کہ خود کردہ کا درماں کیا ہے
داور حشر پہ ناحق کا بھرم ہے ہم کو
اگلے لقموں میں نہیں قند مکرر کا مزا
سخت بے لطف حیات پیہم ہے ہم کو
زیست کی کشمکش اور مرگ کی قربت کا الم
آمد و رفت نفس تیغ دو دم ہے ہم کو
بیٹھے بیٹھے جو کٹے پھر تگ و دو سے حاصل
ہر نفس جادۂ ہستی میں قدم ہے ہم کو
ذرہ ذرہ میں نظر آتی ہے تصویر صنم
سر بسر رو کش صد دیر و حرم ہے ہم کو
بار غم بار سے احساں کے بدل جاتا ہے
طوق گردن کشش کاف کرم ہے ہم کو
حال دل لکھتے نہ لوگوں کی زباں میں پڑتے
وجہ انگشت نمائی یہ قلم ہے ہم کو
آنکھ کیا ڈالیے اس گل پہ جو کمھلا جائے
کیفیؔ اپنا ہی یہ دل باغ ارم ہے ہم کو
مأخذ:
Waridat (Pg. 468)
- مصنف: دتا تریہ کیفی
-
- اشاعت: 1941
- ناشر: میسرز رام لال سوری اینڈ سنز، انارکلی، لاہور
- سن اشاعت: 1941
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.