غم کے ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی آئے
غم کے ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی آئے
شام ہوتے ہی کوئی یاد پرانی آئے
تپتے صحرا کی طرح عمر گزاروں کب تک
اب یہ خواہش ہے مری آنکھ میں پانی آئے
تیری یادوں سے مہکنے لگے گھر کا ماحول
جب ترا ذکر ہو موسم پہ جوانی آئے
کاش ہم توڑ سکیں مل کے اندھیرے کا غرور
کاش ہم کو بھی کوئی شمع جلانی آئے
میں ترے خواب کی تعبیر لکھوں جب بھی وسیمؔ
گود پھیلائے ہوئے رات کی رانی آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.