غموں کی دھوپ تھی اور سائباں نہ ملتا تھا
غموں کی دھوپ تھی اور سائباں نہ ملتا تھا
گھروں سے نکلے ہوؤں کو مکاں نہ ملتا تھا
ہمارے پاؤں کے نیچے زمین تھی لیکن
ہمارے سر پہ کوئی آسماں نہ ملتا تھا
تمہارا کھویا ہوا لمس اپنے کمرے میں
وہیں پہ ڈھونڈھ رہے تھے جہاں نہ ملتا تھا
جو درد ہم نے سنبھالا ہوا تھا سینے میں
کسے سناتے کوئی مہرباں نہ ملتا تھا
جو سانس سانس میسر رہا مجھے برسوں
بچھڑ گئے تو پھر اس کا نشاں نہ ملتا تھا
نئی نئی تھی محبت مگر دلوں میں تھی
یہ ایسی آگ تھی جس کا دھواں نہ ملتا تھا
وہ روز باغ میں آتی تھی سیر کرنے کو
پرندے خوش تھے انہیں آب و دانہ ملتا تھا
یہ لوگ جس کے بہاؤ کے گیت گاتے تھے
ہمیں وہ دریا کبھی بھی رواں نہ ملتا تھا
ہم ایسے بولنے والے کہاں تھے پر آربؔ
وہ بولتا تو ہمیں بھی بہانہ ملتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.