غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے
غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے
مرے شعروں کو اس نے طنز کے خنجر پہ رکھا ہے
مناتا ہوں میں اکثر رت جگے راتوں کے آنگن میں
شکستہ خواب کا ٹکڑا مرے بستر پہ رکھا ہے
بس اتنا سوچ کر تعبیر کی صورت کوئی نکلے
پرانے خواب کو میں نے نئے منظر پہ رکھا ہے
ستم کی دھوپ سے بچنے کی خاطر اوڑھ لیتا ہوں
بزرگوں کی دعا کا حرف جس چادر پہ رکھا ہے
لٹا بیٹھے ہیں اپنا کارواں انجان راہوں میں
بھروسہ جب کبھی ہم نے کسی رہبر پہ رکھا ہے
دعا دے کر گزر جاتے ہیں رہرو جانب منزل
جلا کر اک دیا میں نے جو اپنے در پہ رکھا ہے
مرے بچے بڑے ہو کر اٹھا لیں گے اسے اک دن
ضرورت کا پہاڑ اب تک جو میرے سر پہ رکھا ہے
ذرا دیکھے کوئی شان فقیری اے سعیدؔ اپنی
کہ تاج و تخت کو ہم نے سدا ٹھوکر پہ رکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.