غزلیں بھی بہت لکھیں اور گیت بہت گائے
غزلیں بھی بہت لکھیں اور گیت بہت گائے
ہم شعر کی عظمت کو لیکن نہ پہنچ پائے
کچھ ایسا انوکھا بھی انداز نہ تھا اپنا
کچھ لوگ مگر پھر بھی ہم کو نہ سمجھ پائے
ہم دل کی امیری سے اس درجہ تونگر تھے
جو خاک ملی ہم کو ہم سونا بنا لائے
مٹی میرے کھیتوں کی ہتھیا لی اسیروں نے
اور جتنے گھروندے تھے یاروں نے مرے ڈھائے
رہزن سے بچا لائے سب مال و متاع اپنی
گھر لوٹ گئے لیکن جو تھے مرے ہمسائے
ہم اہل ہنر اب تو اس حال پہ قانع ہیں
نے دھوپ ہے عارض کی نے گیسوؤں کے سائے
وہ عہد جوانی جو اس شہر میں کاٹا تھا
اے کاش کبھی وہ بھی اک روز پلٹ آئے
یہ آگ مرے گھر میں ہے اپنے چراغوں کی
دشمن کو ضرورت کیا چنگاری وہ بھڑکائے
دشمن کا نصیب اب تو یہ اپنی کرامت ہے
دہلیز پہ اس کی ہم نعمت یہ لٹا آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.