گل بھیک میں لیتے ہیں جس پھول سے رعنائی
گل بھیک میں لیتے ہیں جس پھول سے رعنائی
ہم کو بھی میسر ہے اس نام سے تنہائی
دونوں کے مقدر کی گردش ہی نرالی ہے
یہ قلب تھکا ہارا وہ لالۂ صحرائی
کیوں خلق کا شوق آیا کوئی کبر سے جا پوچھے
کیا چیز تھی تنہائی؟ کیا خوب تھی یکتائی؟
یک طرفہ محبت کا ہر رنگ نرالا ہے
بیگانہ کرے جگ سے یہ رحمت رسوائی
تڑپے ہیں ملائک بھی وہ قہر تھا آنکھوں میں
دیکھا ترا شیدائی تو موت بھی گھبرائی
دم سادھے وہ شب آیا اک دیپ جلا لایا
تربت پہ اسیروں کی بجتی رہی شہنائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.