گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوق خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوام کلفت خاطر ہے عیش دنیا کا
غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
ہنوز محرمی حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بن مو کام چشم بینا کا
دل اس کو پہلے ہی ناز و ادا سے دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدار حسرت دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اس کو یاد اسدؔ
جفا میں اس کی ہے انداز کار فرما کا
مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے
میں مدعا ہوں تپش نامۂ تمنا کا
ملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کو
عدم کو لے گئے دل میں غبار صحرا کا
مأخذ:
دیوان غالب جدید (Pg. 159)
- مصنف: مرزا غالب
-
- ناشر: مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال
- سن اشاعت: 1982
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.